(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا سفيان بن عيينة , عن عاصم , عن مولى ابي رهم واسمه عبيد , ان ابا هريرة , لقي امراة متطيبة تريد المسجد , فقال: يا امة الجبار اين تريدين؟ قالت: المسجد , قال: وله تطيبت؟ قالت: نعم , قال: فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" وايما امراة تطيبت , ثم خرجت إلى المسجد , لم تقبل لها صلاة حتى تغتسل". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ عَاصِمٍ , عَنْ مَوْلَى أَبِي رُهْمٍ وَاسْمُهُ عُبَيْدٌ , أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ , لَقِيَ امْرَأَةً مُتَطَيِّبَةً تُرِيدُ الْمَسْجِدَ , فَقَالَ: يَا أَمَةَ الْجَبَّارِ أَيْنَ تُرِيدِينَ؟ قَالَتْ: الْمَسْجِدَ , قَالَ: وَلَهُ تَطَيَّبْتِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ , قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" وأَيُّمَا امْرَأَةٍ تَطَيَّبَتْ , ثُمَّ خَرَجَتْ إِلَى الْمَسْجِدِ , لَمْ تُقْبَلْ لَهَا صَلَاةٌ حَتَّى تَغْتَسِلَ".
ابورہم کے عبید نامی غلام کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا سامنا ایک ایسی عورت سے ہوا جو خوشبو لگائے مسجد جا رہی تھی، تو انہوں نے کہا: اللہ کی بندی! کہاں جا رہی ہو؟ اس نے جواب دیا: مسجد، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم نے اسی کے لیے خوشبو لگا رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں، انہوں نے کہا: بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو عورت خوشبو لگا کر مسجد جائے، تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ غسل کر لے“۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4002
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) عورت کو گھر سے نکلے وقت خوشبو استعمال کرنا منع ہے۔
(2) عورت کے لیے نماز باجماعت کےلیے مسجد میں جانا جائز ہے بشرطیکہ زیب و زینت کر کے نہ نکلے بلکہ سادہ لباس میں پردے اور دیگر شرعی آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے جائے۔
(3) بزرگ شخصیت کے لیے جائز ہے کہ اجنبی عورت کو غلطی پر تنبیہ کرے بشرطیکہ اس سے کوئی غلط فہمی پیدا ہونے کا خدشہ نہ ہو جس سے نیک آدمی کی عزت کو خطرہ لاحق ہو جائے۔
(4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو اللہ کا خوف دلانے کے لیے اللہ کی بندی کی بجائے جبار کی بندی کہہ کر مخاطب فرمایا تھا۔ اس میں ڈانٹ کا پہلو بھی شامل تھا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4002
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4174
´عورت باہر جانے کے لیے خوشبو لگائے تو کیسا ہے؟` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان سے ایک عورت ملی جس سے آپ نے خوشبو پھوٹتے محسوس کیا، اور اس کے کپڑے ہوا سے اڑ رہے تھے تو آپ نے کہا: جبار کی بندی! تم مسجد سے آئی ہو؟ وہ بولی: ہاں، انہوں نے کہا: تم نے مسجد جانے کے لیے خوشبو لگا رکھی ہے؟ بولی: ہاں، آپ نے کہا: میں نے اپنے حبیب ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اس عورت کی نماز قبول نہیں کی جاتی جو اس مسجد میں آنے کے لیے خوشبو لگائے، جب تک واپس لوٹ کر جنابت کا غسل نہ کر لے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: «اعصار» غبار ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4174]
فوائد ومسائل: 1) جہاں فتنہ کا اندیشہ نہ ہو وہاں اجنبی عورت سے براہِ راست خطاب کر کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا حق ہے۔ بالخصوص بڑی عمر کے بزرگوں کے لیئے یہ عمل کو ئی عیب شمار نہیں ہوتا۔
2) عورتوں کو جائز نہیں کہ خوشبو لگا کر باہر نکلیں خواہ مسجد ہی جانا ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4174
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1001
1001-عاصم بن عبیداللہ عمری بیان کرتے ہیں: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ملا قات ایک خاتون سے ہوئی جو خوشبو میں بسی ہوئی تھی، تو انہوں نے دریافت کیا: اے اللہ کی کنیز! تم کہاں جارہی ہو؟ اس نے جوا ب دیا: مسجد۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: مسجد کے لیے تم نے خوشبو لگائی ہے؟ اس نے جواب دیا: جی ہاں۔ تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم واپس جاؤ اور اسے دھولو! کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو عورت خوشبو لگا کر پھر مسجد میں جانے کے ارادے سے نکلتی ہے، تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ اور یہ بھی نہیں ہوتا اور وہ بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1001]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت کو گھر سے سادگی کے ساتھ باہر نکلنا چاہیے، عورت گھر میں رہ کر خوشبو استعمال کر سکتی ہے، جب اس نے نماز کے لیے مسجد میں آنا ہو یا بازار جانا ہوتو خوشبو ہرگز استعمال نہ کرے، اگر خوشبو لگا کر مسجد میں جائے گی تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی، اسی طرح جب عورت خوشبو لگا کر بازار وغیرہ جائے گی تو اس کو زانیہ کہا گیا ہے۔ افسوس کہ موجودہ دور میں شادی بیاہ کے موقع پر عورتیں خوشبو بھی استعمال کرتی ہیں اور نیم برہنہ حالت میں بھی ہوتی ہیں، کیا ہو گیا ہے امت مسلمہ کو، وہ کیوں اسلام سے محبت نہیں کرتی۔ مرد و خواتین کی حقیقی عزت و فلاح قرآن و حدیث کی اطاعت میں ہے، نہ کہ یہود و نصاریٰ کی نقالی میں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1000