الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2462
´باب:۔۔۔`
مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ نے خبر دی ہے کہ عمرو بن عوف رضی الله عنہ (یہ بنو عامر بن لوی کے حلیف اور جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے) نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی الله عنہ کو بھیجا پھر وہ بحرین (احساء) سے کچھ مال غنیمت لے کر آئے، جب انصار نے ابوعبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو وہ سب فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے، ادھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے فارغ ہو کر واپس ہوئے تو لوگ آپ کے سامنے آئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا: ”شاید تم لوگوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2462]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال واسباب کی فراوانی دینی اعتبار سے فقرو تنگ دستی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے،
یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی امت کو اس فتنہ سے آگاہ کیا،
تاکہ لوگ اس کے خطرناک نتائج سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں،
لیکن افسوس صد افسوس مال واسباب کی اسی کثرت نے لوگوں کی اکثریت کو دین سے غافل کردیا،
اور آج وہ چیز ہمارے سامنے ہے جس کا آپﷺ کو اندیشہ تھا،
حالاں کہ مال جمع کرنے سے آدمی سیر نہیں ہوتا بلکہ مال کی فروانی کے ساتھ ساتھ اس کے اندر مال کی بھوک بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ قبر کی مٹی ہی اس کا پیٹ بھرسکتی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2462
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7425
حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بنی عامربن لوی کے حلیف تھے،انھوں نے جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی تھی،انھیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحرین بھیجا تاکہ وہاں کا جذیہ لے آئیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود اہل بحرین سے صلح کی تھی اور علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان پر امیر مقرر کیا تھا،حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحرین سے مال لے آئے،انصار نے حضرت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7425]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
فوافوا صلاة الفجر:
انہوں نے نماز فجر کوپایا،
اس میں حاضر ہوئے،
کیونکہ عام حالات میں وہ اپنے اپنے محلوں کی مساجد میں نماز پڑھتے تھے،
کسی اجتماعی ضرورت کے لیے،
سارے آپ کی مسجد میں حاضر ہوتے تھے۔
(2)
تنافسوها:
یعنی تتنافسوها:
اس میں رغبت اور چاہت کرو گے،
زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کی کوشش کروگے۔
ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرگے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو امت کے فقرو ناداری میں مبتلا ہونے کا زیادہ خطرہ نہیں تھا،
بلکہ زیادہ خطرہ اس بات کا تھا کہ زیادہ دولت مندی آئے گی،
جس سے دنیوی حرص اور دولت کی رغبت و چاہت میں اضافہ ہوگا،
لوگ دنیا کے دیوانے اور متوالے ہوکر مقصد زندگی کو بھلا بیٹھیں گے،
دنیا کی عیش و عشرت میں مگن ہوکر،
باہمی حسد و بغض کا شکار ہوں گے اور دنیا پرستی میں مبتلا ہوکر تباہ و برباد ہوں گے اور آج کل ہم سر کی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7425
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4015
4015. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ عمرو بن عوف ؓ۔۔ جو بنو عامر بن لؤی کے حلیف اور نبی ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک تھے۔۔ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح ؓ کو جزیہ لانے کے لیے بحرین روانہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی اور آپ نے علاء بن حضرمی ؓ کو وہاں کا حاکم مقرر کیا تھا۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ بحرین سے مال لائے۔ جب انصار نے ابو عبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو انہوں نے نماز فجر نبی ﷺ کے ساتھ ادا کی۔ آپ ﷺ جب (نماز سے) فارغ ہوئے تو وہ (انصار) آپ کے سامنے آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب انہیں دیکھا تو آپ مسکرائے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”میرا خیال ہے تم نے سن لیا ہے کہ ابوعبیدہ کچھ مال لائے ہیں؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”تمہیں بشارت ہو اور تم اس چیز کی امید رکھو جو تمہیں خوش کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4015]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث باب الجزیہ میں گزرچکی ہے۔
یہاں صرف یہ بتانا ہے کہ حضرت عمرو بن عوف ؓ صحابی بدری تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4015
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6425
6425. حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، جو بنوعامر بن لؤی کے حلیف ہیں اور غزوہ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شریک تھے۔ انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوعبید بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحرین میں جزیہ وصول کرنے کے لیے روانہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اہل بحرین سے صلح کرلی تھی اور ان پر حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر مقرر کیا تھا۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحرین سے مال لے کر آئے تو انصار نے ان کے آنے کی خبر سنی اور نماز فجر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ادا کی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو انصار آپ کے سامنے آگئے۔ آپ انھیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: ”میرا خیال ہے کہ تم نے ابوعبیدہ کے آنے کی خبر سنی ہے اور تمھیں یہ بھی معلوم ہوا ہوگا کہ وہ کچھ لے کر آئے ہیں؟“ انصار نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: ”تمھیں خوشخبری ہو اور تم اس کی امید رکھو جو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6425]
حدیث حاشیہ:
ہو بہو یہی ہوا بعد کے زمانوں میں مسلمان محبت دنیاوی میں پھنس کر اسلام اور فکر آخرت سے غافل ہوگئے جس کے نتیجہ میں بے دینی پیدا ہوگئی اور وہ آپس میں لڑنے لگے جس کا نتیجہ یہ انحطاط ہے جس نے آج دنیائے اسلام کو گھیر رکھا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6425
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3158
3158. حضرت عمرو بن عوف انصاری ؓسے روایت ہے، جو بنو عامر بن لوی قبیلے کے حلیف اور غزوہ بدر میں شریک ہوچکے تھے، کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحرین بھیجا تاکہ وہاں کا جزیہ لے آئیں۔ ہوا یوں تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے بحرین والوں سے صلح کرلی تھی اور حضرت علاء بن حضرمی ؓکو وہاں کا حاکم بنا دیا تھا۔ الغرض حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ بحرین کامال لے کر آئے۔ جب انصار نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کے آنے کی خبر سنی تو انھوں نے نماز فجر نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ادا کی۔ جب آپ انھیں نماز پڑھا چکے تو وہ آپ کے سامنے آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب انھیں دیکھا تو مسکراتے ہوئے فرمایا: ”میرے خیال کے مطابق تم نے سن لیا ہے کہ ابو عبیدہ ؓ کچھ مال لائے ہیں؟“ انھوں نے عرض کیا: ہاں۔ اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: ”تو پھر تم خوش ہوجاؤ، اورخوشی کی امید رکھو، اللہ کی قسم! مجھے تمہاری ناداری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3158]
حدیث حاشیہ:
سبحان اللہ! کیا عمدہ نصیحت فرمائی، مسلمانوں کو۔
جتنی دولتیں اور ریاستیں تباہ ہوئیں وہ اسی آپس کے رشک اور حسد اور نااتفاقی کی وجہ سے۔
آج بھی عرب ممالک کو دیکھا جاسکتا ہے کہ یہودی ان کی چھاتیوں پر سوار ہیں اور وہ آپس میں لڑ لڑ کر کمزور ہورہے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3158
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3158
3158. حضرت عمرو بن عوف انصاری ؓسے روایت ہے، جو بنو عامر بن لوی قبیلے کے حلیف اور غزوہ بدر میں شریک ہوچکے تھے، کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحرین بھیجا تاکہ وہاں کا جزیہ لے آئیں۔ ہوا یوں تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے بحرین والوں سے صلح کرلی تھی اور حضرت علاء بن حضرمی ؓکو وہاں کا حاکم بنا دیا تھا۔ الغرض حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ بحرین کامال لے کر آئے۔ جب انصار نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کے آنے کی خبر سنی تو انھوں نے نماز فجر نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ادا کی۔ جب آپ انھیں نماز پڑھا چکے تو وہ آپ کے سامنے آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب انھیں دیکھا تو مسکراتے ہوئے فرمایا: ”میرے خیال کے مطابق تم نے سن لیا ہے کہ ابو عبیدہ ؓ کچھ مال لائے ہیں؟“ انھوں نے عرض کیا: ہاں۔ اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: ”تو پھر تم خوش ہوجاؤ، اورخوشی کی امید رکھو، اللہ کی قسم! مجھے تمہاری ناداری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3158]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ نے ہجری میں اہل بحرین سے صلح کی تھی۔
اس وقت بحرین کے لوگ مجوسی تھے۔
2۔
موادعت سے مراد ترک قتال ہے۔
اہل بحرین کے خلاف اقدام قتال سے باز رہنا اوران سے جزیہ لینے پر صلح کرنا موادعت ہے۔
وہاں حضرت علاء بن حضرمی ؓکو گورنر مقرر کیا تھا تاکہ وہ ان کی نقل وحرکت پر نظر رکھیں۔
3۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ دنیا کی رغبت کبھی ہلاکت تک پہنچا دیتی ہے۔
مسلمانوں کا قومی سطح پر جتنا بھی نقصان ہوا اگر اس کا بغور جائز ہ لیاجائے تو وہاں دنیا طلبی کے متعلق منفی جذبات ہی کارفرمانظرآتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺنے اس حدیث میں اس مرض کی نشاندہی کی ہے اور اس کاعلاج بھی تجویز کیا ہے۔
افسوس کہ آج بھی عرب ممالک کو دیکھا جاسکتا ہے کہ یہودی ان کی چھاتیوں پر سوار ہیں اور وہ دنیا طلبی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے ہیں اور آپس میں لڑلڑ کرکمزور ہورہے ہیں۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3158
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4015
4015. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ عمرو بن عوف ؓ۔۔ جو بنو عامر بن لؤی کے حلیف اور نبی ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک تھے۔۔ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح ؓ کو جزیہ لانے کے لیے بحرین روانہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی اور آپ نے علاء بن حضرمی ؓ کو وہاں کا حاکم مقرر کیا تھا۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ بحرین سے مال لائے۔ جب انصار نے ابو عبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو انہوں نے نماز فجر نبی ﷺ کے ساتھ ادا کی۔ آپ ﷺ جب (نماز سے) فارغ ہوئے تو وہ (انصار) آپ کے سامنے آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب انہیں دیکھا تو آپ مسکرائے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”میرا خیال ہے تم نے سن لیا ہے کہ ابوعبیدہ کچھ مال لائے ہیں؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”تمہیں بشارت ہو اور تم اس چیز کی امید رکھو جو تمہیں خوش کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4015]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں ذکر ہے کہ حضرت عمرو بن عوف ؓ نے غزوہ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شرکت کی تھی۔
وہ غزوہ احد، خندق اور دیگر غزوات میں بھی شریک ہوئے تھے۔
حضرت عمر ؓ کے دور حکومت میں فوت ہوئے اور حضرت عمر ؓ ہی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔
2۔
بحرین بصرہ اور عمان کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔
ان کے باشندوں سے جزیے کی ادائیگی پر صلح کر لی گئی تھی۔
وہاں کے گورنر حضرت علاء بن حضرمی ؓ تھے ان کی وفات کے بعد حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کو وہاں کا حاکم مقرر فرمایا۔
3۔
رسول اللہ ﷺ نے بڑی قیمتی نصیحت فرمائی ہے کہ فقر اور تنگ دستی اس قدر نقصان دی نہیں جس ققدر مال و دولت کی فراوانی نقصان دہ ہے کیونکہ غربت میں اللہ یادر رہتا ہے جبکہ دولت کے نشے میں اللہ بھول جاتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4015
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6425
6425. حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، جو بنوعامر بن لؤی کے حلیف ہیں اور غزوہ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شریک تھے۔ انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوعبید بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحرین میں جزیہ وصول کرنے کے لیے روانہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اہل بحرین سے صلح کرلی تھی اور ان پر حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر مقرر کیا تھا۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحرین سے مال لے کر آئے تو انصار نے ان کے آنے کی خبر سنی اور نماز فجر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ادا کی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو انصار آپ کے سامنے آگئے۔ آپ انھیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: ”میرا خیال ہے کہ تم نے ابوعبیدہ کے آنے کی خبر سنی ہے اور تمھیں یہ بھی معلوم ہوا ہوگا کہ وہ کچھ لے کر آئے ہیں؟“ انصار نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: ”تمھیں خوشخبری ہو اور تم اس کی امید رکھو جو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6425]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ اگلی قوموں اور امتوں کا تجربہ تھا کہ جب ان کے ہاں دنیا کی ریل پیل ہوئی تو ان میں دنیوی حرص اور دولت کی چاہت اور زیادہ بڑھ گئی، پھر وہ دنیا کے دیوانے اور متوالے ہو گئے اور اصل مقصد زندگی کو فراموش کر دیا، پھر اس وجہ سے ان میں باہمی حسد و بغض بھی پیدا ہوا، بالآخر دنیا پرستی نے انہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے متعلق بھی اس قسم کا اندیشہ تھا، اس لیے آپ نے اس خطرے سے آگاہ کیا اور فرمایا:
'”مجھے تم پر فقر و ناداری کے حملے کا اتنا ڈر نہیں بلکہ اس کے برعکس دنیا پرستی میں مبتلا ہو کر تمہارے ہلاک ہونے کا مجھے زیادہ خوف اور ڈر ہے۔
“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدعا اس خوش نما فتنے کی خطرناکی سے امت کو آگاہ کرنا ہے۔
بعد میں آنے والے حالات سے یہ واضح ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور مسلمان دنیاوی محبت میں پھنس کر اسلام اور فکر آخرت سے غافل ہو گئے جس کے نتیجے میں بے دینی اور انحطاط نے دنیائے اسلام کو گھیر رکھا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بجا طور پر فرمایا ہے:
”اگر ابن آدم کے پاس خزانوں سے بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری وادی کی تلاش میں نکل کھڑا ہو گا۔
ابن آدم کا پیٹ کو صرف قبر کی مٹی ہی بھرے گی، اللہ تعالیٰ تو اپنی مہربانی اس پر کرتا ہے جو اپنا رخ اس کی طرف کر لیتا ہے۔
“ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6436)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6425