ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخار جہنم کی بھاپ ہے، لہٰذا اسے پانی سے ٹھنڈا کرو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: خود حدیث دلالت کرتی ہے کہ یہاں وہ بخار مراد ہے جو گرمی سے ہو، کیونکہ پانی سے وہی ٹھنڈا ہو گا،اور جو بخار سردی سے ہو گا اس میں تو آگ سے گرم کرنا مفید ہو گا، اور بخار جہنم کی آگ سے ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں کیونکہ دوسری حدیث میں ہے کہ گرمی اور سردی دونوں جہنم کی سانس سے ہوتی ہیں، گرمی تو اس حصہ جہنم کی بھاپ سے ہوتی ہیں جو گرم انگار ہے، اور سردی اس حصے کی بھاپ سے ہے جو زمہریر ہے، اور بخار ہمیشہ یا گرمی کی وجہ سے ہوتا ہے یا سردی سے پس یہ کہنا بالکل صحیح ہوا کہ بخار جہنم کی بھاپ سے ہے کیونکہ سبب کا ایک سبب ہوتا ہے، اور علت کی علت خود علت ہوتی ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3471
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) بیمار کا جہنم کی آگ سے تعلق غیبی اور روحانی ہے۔ اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوسکتی۔ یا یہ مطلب ہے کہ اس سے جہنم کی یاد آتی ہے۔ یا جس طرح دنیا کی خوشیاں اور راحتیں جنت کی نعمتوں سے ایک طرح کی نسبت رکھتی ہیں۔ اسی طرح غم اور دکھ کا جہنم سے ایک تعلق ہے۔
(2) حرارت کا علاج پانی ہے۔ بخار کی اکثر قسموں میں پانی کے استعمال سے فائدہ ہوتاہے۔
(3) اس حدیث میں پانی کے استعمال کا طریقہ بیان نہیں کیاگیا اس کے استعمال کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں۔ مثلاً پانی پینا یا جسم پر پانی کی پٹیاں رکھنا یاغسل کرنا جیسے رسول اللہ ﷺ نے حیات مبارکہ کے آخری ایام میں غسل فرمایا تاکہ حرارت کچھ کم ہو تو جماعت سے نماز پڑھ سکیں۔ خصوصاً گرم علاقوں میں بخار عام طور پر گرمی کی شدت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کا علاج پانی سے مناسب ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکررضی اللہ تعالیٰ عنہا بخار کی مریض خاتون کے گریبان میں پانی ڈال دیا کرتی تھیں۔ تاکہ جسم کو ٹھنڈک پہنچے اور فرماتی تھیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیتے تھے۔ کہ ہم اسے (بخار کو) پانی کے ذریعے سے ٹھنڈا کریں۔ (صحیح البخاري، الطب، باب الحمی من فیح جھنم، حدیث: 5724)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3471