انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ برتن سے تین سانسوں میں پیتے اور کہتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تین سانسوں میں پیا کرتے تھے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: تین سانس میں پانی پینا مستحب ہے، مگر ضروری ہے کہ جب سانس لے تو برتن کو اپنے منہ سے علیحدہ کر لے، اور دوسری حدیث میں جو برتن میں سانس لینے سے منع کیا ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ برتن منہ سے لگا ہو، اور سانس لے یہ مکروہ ہے، اس لئے کہ پانی ناک میں چڑھ جانے کا ڈر ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3416
اردو حاشہ: فوائد ومسائل: تین بار سانس لینے کامطلب یہ ہے کہ تھوڑا سا پانی پی کر برتن منہ سے ہٹا لیا جائے پھر دوبارہ اور سہ بارہ پانی پیا جائے جیسے حدیث: 3427 میں وضاحت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3416
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1884
´پیتے وقت برتن میں سانس لینے کا بیان۔` انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم برتن سے تین سانس میں پانی پیتے تھے اور فرماتے تھے: (پانی پینے کا یہ طریقہ)”زیادہ خوشگوار اور سیراب کن ہوتا ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأشربة/حدیث: 1884]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: معلوم ہواکہ پینے والی چیز تین سانس میں پی جائے، اور سانس لیتے وقت برتن سے منہ ہٹا کر سانس لی جائے، اس سے معدہ پر یکبارگی بوجھ نہیں پڑتا، اور اس میں حیوانوں سے مشابہت بھی نہیں پائی جاتی، دوسری بات یہ ہے کہ پانی کے برتن میں سانس لینے سے تھوک اور جراثیم وغیرہ جانے کا جو خطرہ ہے اس سے حفاظت ہوجاتی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1884
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1884
´پیتے وقت برتن میں سانس لینے کا بیان۔` انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم برتن سے تین سانس میں پانی پیتے تھے اور فرماتے تھے: (پانی پینے کا یہ طریقہ)”زیادہ خوشگوار اور سیراب کن ہوتا ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأشربة/حدیث: 1884]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: معلوم ہواکہ پینے والی چیز تین سانس میں پی جائے، اور سانس لیتے وقت برتن سے منہ ہٹا کر سانس لی جائے، اس سے معدہ پر یکبارگی بوجھ نہیں پڑتا، اور اس میں حیوانوں سے مشابہت بھی نہیں پائی جاتی، دوسری بات یہ ہے کہ پانی کے برتن میں سانس لینے سے تھوک اور جراثیم وغیرہ جانے کا جو خطرہ ہے اس سے حفاظت ہوجاتی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1884
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5631
5631. حضرت ثمامہ بن عبداللہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کہ حضرت انس ؓ (پیتے وقت) برتن میں دو یا تین سانس لیتے اور کہتے تھے کہ نبی ﷺ پانی پیتے وقت تین سانس لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5631]
حدیث حاشیہ: طبرانی کی روایت میں ہے کہ جب آپ کے پاس پانی کا پیالہ آتا تو پہلے آپ بسم اللہ پڑھ کر پینا شروع فرماتے، درمیان میں تین سانس لیتے آخر میں الحمدللہ پڑھتے اور فرمایا کہ پینے کے ابتدا میں بسم اللہ پڑھو آخر میں الحمد للہ کہو (فتح الباری)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5631
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5631
5631. حضرت ثمامہ بن عبداللہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کہ حضرت انس ؓ (پیتے وقت) برتن میں دو یا تین سانس لیتے اور کہتے تھے کہ نبی ﷺ پانی پیتے وقت تین سانس لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5631]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پانی پیتے وقت ایک ہی سانس سے نہ پیا جائے بلکہ اس دوران میں تین سانس لیے جائیں اور سانس لیتے وقت برتن کو منہ سے الگ کر دیا جائے جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی پانی وغیرہ پیے تو اسے برتن میں سانس نہیں لینا چاہیے۔ اگر دوبارہ پینا چاہے تو برتن منہ سے ہٹائے، پھر چاہے تو دوبارہ مزید پی لے۔ “(سنن ابن ماجة، الأشربة، حدیث: 3427) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبرانی کے حوالے سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیتے وقت تین سانس لیتے تھے۔ جب پیالہ منہ کے قریب کرتے تو بسم اللہ پڑھتے اور جب اسے منہ سے ہٹاتے تو الحمدللہ پڑھتے۔ اس طرح تین دفعہ کرتے تھے۔ (المعجم الأوسط للطبراني: 117/10، والصحیحة للألباني، حدیث: 1277)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5631