انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ قضائے حاجت کے لیے الگ تھلگ ہوئے پھر واپس آئے، وضو کے لیے پانی مانگا اور وضو کیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1092، ومصباح الزجاجة: 137) (صحیح)» (سند میں ضعف ہے، اس لئے کہ عمر بن المثنی الاشجعی الرقی مستور اور عطاء خراسانی تدلیس و ارسال کرنے والے ہیں، اور ان کی روایت عنعنہ سے ہے، نیز ان کا سماع انس رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 33)
It was narrated that Anas said:
"I was with the Prophet on a journey. He went away to relieve himself, then he came and called for water and performed ablution."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف لضعف (عمر بن المثني) الأشجعي وقال أبو زرعة: عطاء لم يسمع من أنس“ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 388
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 145
´وضو میں ڈاڑھی کا خلال تاکیدی سنت` «. . . عَنْ أَنَسٍ يَعْنِي ابْنَ مَالِكٍ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا تَوَضَّأَ أَخَذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَأَدْخَلَهُ تَحْتَ حَنَكِهِ فَخَلَّلَ بِهِ لِحْيَتَهُ، وَقَالَ: هَكَذَا أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ . . .» ”. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تو ایک چلو پانی لے کر اسے اپنی ٹھوڑی کے نیچے لے جاتے تھے، پھر اس سے اپنی داڑھی کا خلال کرتے اور فرماتے: ”میرے رب عزوجل نے مجھے ایسا ہی حکم دیا ہے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 145]
فوائد و مسائل: وضو میں ڈاڑھی کا خلال تاکیدی سنت ہے، البتہ غسل جنابت میں اسے دھونا چاہیے، اس لیے کے ہر ہر بال کے نیچے جنابت ہوتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 145
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:214
214. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کیا کرتے تھے۔ (راوی عمرو بن عامر کہتے ہیں) میں نے پوچھا: آپ حضرات (صحابہ) کا کیا معمول تھا؟ حضرت انس ؓ نے فرمایا: ہم میں سے ایک شخص کو اس وقت تک وضو کافی ہوتا تھا جب تک اسے حدث لاحق نہ ہوتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:214]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو بیان کیا ہے، اس میں کچھ اضافہ ہے کہ نبی ﷺ وضو سے ہوتے یا بغیر وضو کے ہر حال میں نماز کے لیے تازہ وضو کرتے تھے۔ (سنن الترمذي، الطهارة، حدیث: 58) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرتے تھے۔ پھر یہ منسوخ کردیا گیا، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے وقت تازہ وضو کرنے کے پابند تھے، خواہ آپ وضو ہی سے کیوں نہ ہوں۔ جب آپ پر یہ گراں گزرا تو اس کے بجائے ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حديث: 48) ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے وقت ایک ہی وضو سے نمازیں ادا کیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے متعلق دریافت فرمایا آپ نے جواب دیا: ” میں نے دانسۃ ایسا کیا ہے۔ “(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 642 (277) حضرت سوید بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث (جوآگے آرہی ہے) سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے لیے تازہ وضو کی پابندی خیبر کے موقع پر اٹھا لی گئی تھی اور فتح مکہ اس کے بعد ہوا، ممکن ہے کہ پابندی اٹھنے کے باوجود خیرو برکت کے لیے آپ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرتے ہوں جس کی خبر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ ہوسکی، کیونکہ ان کے سوال کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں اس کا علم نہ تھا۔ واضح رہے کہ ہر نماز کے لیے نیا وضو صرف رسول الله ﷺ کے لیے تھا، افراد امت کے لیے یہ پابندی نہ تھی۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب سے معلوم ہوتا ہے۔ ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب بایں الفاظ منقول ہے کہ ہم تمام نمازیں ایک ہی وضو سے پڑھ لیتے تھے۔ (سنن ابن ماجة، الطهارة، حدیث 509) وضو پر وضو کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے، کیونکہ یہ نور علی نور ہے۔ البتہ علمائے احناف نے استحبابِ وضوءِ جدید کے لیے اختلاف مجلس یا دووضو کے درمیان توسط عبادت کی شرط لگائی ہے۔ نیز وضوء علی وضوء میں بعض سلف کے عمل سے وضو ناقص بھی داخل ہے۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق روایات میں ہے کہ آپ نے چہرے، بازو، سراور پاؤں پر ہاتھ پھیراور فرمایا کہ یہ وضو بغیر حدث کا ہے۔ (سنن النسائي، الطهارة، حدیث: 130) نوٹ: امین اصلاحی نے تدبر حدیث کے لیے محدثین کے اسلوب سے بالا بالا راستہ اختیار کر کے منکرین حدیث کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں۔ انھوں نے اس خود ساختہ تدبر کی آڑ میں احادیث کا مذاق اڑایا ہے اور ان میں شکوک و شبہات کا راستہ ہموار کیا ہے اور اس کے لیے وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مذکورہ حدیث پر بھی جو تدبر فرمایا ہے اس کی ایک جھلک پیش خدمت ہے: ”یہ بات کہ آنحضرت ﷺ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرتے تھے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں کہہ سکتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تو آنحضرت ﷺ کو وضو کراتے تھے، ان سے زیادہ حضور کے معمولات سے واقف کون ہو سکتا ہے اور یہ روایت نہ جانے کتنے طریقوں سے مروی ہے کہ آپ نے ایک ہی وضو سے متعدد نمازیں پڑھیں۔ فتح مکہ کے روز آپ کا ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھنا معروف ہے۔ غالباً ہوا یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسے الفاظ میں روایت کی ہے جس سے عموم نکلتا ہے، لیکن خصوص اس سے سمجھا جا سکتا ہے۔ یعنی ایسے فقرے ہو سکتے ہیں جن سے یہ سمجھا جائے کہ آنحضرت ﷺ کا عام طریقہ یہی تھا کہ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرتے تھے اور یہ روایت صحیح ہے، لیکن اس سے یہ نتیجہ نکال لینا کہ ہر نماز کے لیے چاہے وضو قائم ہو نیا وضو کیا جائے قول سے غلط استشہاد ہے، کیونکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کے نقل کرنے میں کچھ بے احتیاطی ہو گئی ہے۔ “(تد برحدیث: 306/1) اصلاحی صاحب کی اس عبارت کے ایک ایک لفظ سے احادیث بخاری رحمۃ اللہ علیہ میں تشکیک کی زہریلی بوندیں ٹپک رہی ہیں. تدبر حدیث نامی کتاب میں جگہ جگہ یہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے متعلق متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بیان ہے کہ آپ پہلے ہر نماز کے لیے نئے وضو کے پابند تھے، خواہ آپ پہلے وضو ہی سے کیوں نہ ہوں، لیکن جن حضرات کی فطرت میں کجی ہو ان کے سامنے اس طرح کے دلائل بے سود ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 214