ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، آپ نے اس سے گفتگو کی تو (خوف کی وجہ سے) اس کے مونڈھے کانپنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ”ڈرو نہیں، اطمینان رکھو، میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں، میں تو ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی ۱؎۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں: صرف اسماعیل نے اسے موصول بیان کیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: «قدید»: ایسے گوشت کو کہتے ہیں جسے نمک لگا کر دھوپ میں سکھایا گیا ہو۔
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف إسماعيل بن أبي خالد عنعن في ھذا السند و صرح بالسماع في الرواية المرسلة عند الخطيب (278/6) والمرسل أصح كما قال الدار قطني وغيره انوار الصحيفه، صفحه نمبر 495
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3312
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نےاس پر کافی مفصل بحث کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تصحیح حدیث والی رائے ہی درست ہے لہٰذا روایت دیگر شواہد کی بنا پر قابل حجت ہے۔ واللہ اعلم . تفصیل کےلیے دیکھیے: (سلسلة الأحاديث الصحيحة للألبانى رقم: 1876، وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد رقم: 3312)
(2) اہل عرب گوشت کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کے لمبے ٹکڑے کاٹ کر نمک لگا کر دھوپ میں خشک کرلیا کرتے تھے۔ اسے قدید کہتے ہیں۔ بعد میں ضرورت پڑنے پر اسے پکا لیا جاتا ہے۔
(3) رسول اللہ ﷺ نے اپنی والدہ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اس شخص کی گھبراہٹ دور ہوجائے جو اس پر نبیﷺ کی عظمت کے احساس سے طاری ہو گئی تھی۔
(4) تواضع کے طور پراپنے آپ کو ایک عام انسان کے طور پر پیش کرنا اللہ کی نعمت کا انکار نہیں۔
(5) بڑے عالم یا بڑے مقام پر فائز شخص کو عام لوگوں سے بات کرتے وقت ایسا انداز اختیار کرنا چاہیے جس سے وہ مانوس ہو جائیں اور آسانی سے اپنی بات کہہ سن سکیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3312