صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان
The Book of Representation
4. بَابُ إِذَا أَبْصَرَ الرَّاعِي أَوِ الْوَكِيلُ شَاةً تَمُوتُ أَوْ شَيْئًا يَفْسُدُ ذَبَحَ وَأَصْلَحَ مَا يَخَافُ عَلَيْهِ الْفَسَادَ:
4. باب: چرانے والے نے یا کسی وکیل نے کسی بکری کو مرتے ہوئے یا کسی چیز کو خراب ہوتے دیکھ کر (بکری کو) ذبح کر دیا یا جس چیز کے خراب ہو جانے کا ڈر تھا اسے ٹھیک کر دیا، اس بارے میں کیا حکم ہے؟
(4) Chapter. If a shepherd or a deputy saw dying sheep or something which is going to be spoiled, he is allowed to slaughter the sheep and save the thing liable to be spoiled.
حدیث نمبر: 2304
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن إبراهيم، سمع المعتمر، انبانا عبيد الله، عن نافع، انه سمع ابن كعب بن مالك يحدث، عن ابيه:" انه كانت لهم غنم ترعى بسلع، فابصرت جارية لنا بشاة من غنمنا موتا، فكسرت حجرا فذبحتها به، فقال لهم: لا تاكلوا حتى اسال النبي صلى الله عليه وسلم، او ارسل إلى النبي صلى الله عليه وسلم من يساله، وانه سال النبي صلى الله عليه وسلم عن ذاك او ارسل، فامره باكلها"، قال عبيد الله: فيعجبني انها امة، وانها ذبحت، تابعه عبدة، عن عبيد الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، سَمِعَ الْمُعْتَمِرَ، أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ:" أَنَّهُ كَانَتْ لَهُمْ غَنَمٌ تَرْعَى بِسَلْعٍ، فَأَبْصَرَتْ جَارِيَةٌ لَنَا بِشَاةٍ مِنْ غَنَمِنَا مَوْتًا، فَكَسَرَتْ حَجَرًا فَذَبَحَتْهَا بِهِ، فَقَالَ لَهُمْ: لَا تَأْكُلُوا حَتَّى أَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ أُرْسِلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يَسْأَلُهُ، وَأَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَاكَ أَوْ أَرْسَلَ، فَأَمَرَهُ بِأَكْلِهَا"، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَيُعْجِبُنِي أَنَّهَا أَمَةٌ، وَأَنَّهَا ذَبَحَتْ، تَابَعَهُ عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ.
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے معتمر سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبیداللہ نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہوں نے ابن کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ اپنے والد سے بیان کرتے تھے کہ ان کے پاس بکریوں کا ایک ریوڑ تھا۔ جو سلع پہاڑی پر چرنے جاتا تھا (انہوں نے بیان کیا کہ) ہماری ایک باندی نے ہمارے ہی ریوڑ کی ایک بکری کو (جب کہ وہ چر رہی تھی) دیکھا کہ مرنے کے قریب ہے۔ اس نے ایک پتھر توڑ کر اس سے اس بکری کو ذبح کر دیا۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب تک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں میں پوچھ نہ لوں اس کا گوشت نہ کھانا۔ یا (یوں کہا کہ) جب تک میں کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کے بارے میں پوچھنے کے لیے نہ بھیجوں، چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا، یا کسی کو (پوچھنے کے لیے) بھیجا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا گوشت کھانے کے لیے حکم فرمایا۔ عبیداللہ نے کہا کہ مجھے یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ باندی (عورت) ہونے کے باوجود اس نے ذبح کر دیا۔ اس روایت کی متابعت عبدہ نے عبیداللہ کے واسطہ سے کی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn Ka`b bin Malik from his father: We had some sheep which used to graze at Sala'. One of our slavegirls saw a sheep dying and she broke a stone and slaughtered the sheep with it. My father said to the people, "Don't eat it till I ask the Prophet about it (or till I send somebody to ask the Prophet)." So, he asked or sent somebody to ask the Prophet, and the Prophet permitted him to eat it. 'Ubaidullah (a sub-narrator) said, "I admire that girl, for though she was a slave-girl, she dared to slaughter the sheep . "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 38, Number 500


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري5501كعب بن مالكجارية لهم كانت ترعى غنما بسلع فأبصرت بشاة من غنمها موتا فكسرت حجرا فذبحتها فقال لأهله لا تأكلوا حتى آتي النبي فأسأله أو حتى أرسل إليه من يسأله فأتى النبي أو بعث إليه فأمر النبي بأكلها
   صحيح البخاري2304كعب بن مالككسرت حجرا فذبحتها به فقال لهم لا تأكلوا حتى أسأل النبي أو أرسل إلى النبي من يسأله وأنه سأل النبي عن ذاك أو أرسل فأمره بأكلها
   صحيح البخاري5504كعب بن مالكامرأة ذبحت شاة بحجر فسئل النبي عن ذلك فأمر بأكلها
   سنن ابن ماجه3182كعب بن مالكذبحت شاة بحجر فذكر ذلك لرسول الله فلم ير به بأسا
   بلوغ المرام1154كعب بن مالكامراة ذبحت شاة بحجر فسئل النبي صلى الله عليه وآله وسلم عن ذلك فامر باكلها

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2304 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2304  
حدیث حاشیہ:
سند میں نافع کی سماعت ابن کعب بن مالک ؓ سے مذکور ہے۔
مزی نے اطراف میں لکھا ہے کہ ابن کعب سے مراد عبداللہ ہیں۔
لیکن ابن وہب نے اس حدیث کو اسامہ بن زید سے روایت کیا ہے۔
انہوں نے ابن شہاب سے انہوں نے عبدالرحمن بن کعب بن مالک سے۔
حافظ نے کہا کہ ظاہر یہ ہے کہ وہ عبد الرحمن ہیں۔
اس حدیث سے کئی ایک مسائل کا ثبوت ملتا ہے کہ بوقت ضرورت مسلمان عورت کا ذبیحہ بھی حلال ہے اور عورت اگر باندی ہو تب بھی اس کا ذبیحہ حلال ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ چاقو، چھری پاس نہ ہونے کی صورت میں تیز دھار پتھر سے بھی ذبیحہ درست ہے۔
یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی حلال جانور اگر اچانک کسی حادثہ کا شکار ہو جائے تو مرنے سے پہلے اس کا ذبح کر دینا ہی بہتر ہے۔
یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی مسئلہ کی تحقیق مزید کر لینا بہرحال بہتر ہے۔
یہ بھی ظاہر ہوا کہ ریوڑکی بکریاں سلع پہاڑی پر چرانے کے لیے ایک عورت (باندی)
بھیجی جایا کرتی تھی۔
جس سے بوقت ضرورت جنگلوں میں پردہ اور ادب کے ساتھ عورتوں کا جانا بھی ثابت ہوا۔
عبید اللہ کے قول سے معلوم ہوا کہ اس دور میں بھی باندی عورت کے ذبیحہ پر اظہار تعجب کیا جایا کرتا تھا۔
کیوں کہ دستور عام ہر قرن میں مردوں ہی کے ہاتھ سے ذبح کرنا ہے۔
سلع پہاڑی مدینہ طیبہ کے متصل دور تک پھیلی ہوئی ہے۔
ابھی ابھی مسجد فتح و بئر عثمان ؓ وغیرہ پر جانا ہوا تو ہماری موٹر سلع پہاڑی ہی کے دامن سے گزری تھی۔
الحمد للہ کہ اس نے محض اپنے فضل و کرم کے صدقہ میں عمر کے اس آخری حصہ میں پھر ان مقامات مقدسہ کی دید سے مشرف فرمایا۔
فلله الحمد والشکر۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2304   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2304  
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر کوئی چیز خراب ہورہی ہو تو مالک سے پوچھنے کی ضرورت نہیں بلکہ وکیل یا ملازم اسے خود ہی ٹھیک کر دے۔
اسی طرح چرواہے بکریاں چراتے ہیں، ممکن ہے کہ کوئی بکری بیمار ہوجائے یا کوئی درندہ اسے زخمی کردے اور وہ ہلاکت کے قریب ہوجائے تو مالک کے مفاد میں ہے کہ اسے مرنے سے پہلے پہلے ذبح کردیا جائے۔
اگر مالک سے پیشگی اجازت لینا ضروری قرار دیا جائے تو بکری ہلاک ہوجائے گی۔
بہر حال اس قسم کی صورت میں بطور وکیل قدم اٹھانے کی اجازت ہے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہواکہ اگر کسی کام کے لیے کوئی وکیل مقرر کیا گیا ہے تو جب تک اس کی خیانت ظاہر نہ ہو اس کی تصدیق کرنا جائز ہے۔
(3)
امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے ذبیحہ کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں بحث کرنا مقصود نہیں بلکہ آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ چرواہے اور وکیل سے ضمان ساقط ہوگی، اس قسم کے نقصان ہونے کی صورت میں ان پر کوئی تاوان نہیں ہوگا، مگر وکیل کے لیے ضروری ہے کہ وہ مؤکل کا مال ہڑپ کرنے کے لیے اس قسم کا راستہ اختیار نہ کرے۔
(فتح الباري: 607/4)
آخر میں بیان کردہ متابعت کو خود امام بخاری رحمہ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الذبائح، حدیث: 5504)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2304   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1154  
´شکار اور ذبائح کا بیان`
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے پتھر سے ایک بکری کو ذبح کر دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے کھانے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے کا حکم فرمایا۔ (مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1154»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الذبائح، باب ذبيحة المرأة والأمة، حديث:5504.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ذبح چھری وغیرہ کے علاوہ اور چیزوں سے بھی ہو سکتا ہے۔
2. ایک روایت میں ہے کہ یہ پتھر دھار دار تھا جس سے خون بہہ گیا تھا۔
3. یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان عورت کا ذبیحہ حلال ہے اور اس کا کھانا بلاکراہت جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1154   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3182  
´عورت کے ذبیحہ کا حکم۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ایک بکری کو پتھر سے ذبح کر دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3182]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عورت کا ذبح کرنا مکروہ نہیں۔

(2)
تیز نوک یا دھار والے پتھر سے ذبح کرنا درست ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3182   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.