مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3141
´قربانی کے لیے کون سا جانور کافی ہے؟`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صرف مسنہ (دانتا جانور) ذبح کرو، البتہ جب وہ تم پر دشوار ہو تو بھیڑ کا جذعہ (ایک سالہ بچہ) ذبح کرو“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3141]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
علامہ البانی ؒبیان کرتے ہیں کہ حضرت مجاشع رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جذعہ سے مراد بھیڑ کا جذعہ ہے بکری کا جذعہ نہیں۔
حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ نے نماز عید سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کرلیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:
یہ گوشت کی بکری ہے۔ (قربانی کی نہیں۔)
انھوں نے کہا:
اے اللہ کے رسولﷺ! میرے پاس ایک بکری کا جذعہ ہے۔ (کیا میں اس کی قربانی دے دوں؟)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قربان کردو لیکن تمھارے سوا کسی اور کے لیے درست نہیں۔ (صحيح البخاري، الأضاحي، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم لأبي بردة ((ضح بالجذع من المعزولن تجزي عن أحد بعدك)
)
حديث: 5556)
علامہ البانی نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی روشنی میں بھیڑ کا جذعہ (ایک سال کا بچہ جس کے دانت نہ ٹوٹے ہوں)
جائز ہے۔
اور یہ جو از اس شرط کے ساتھ مشروط نہیں کہ دو دانتا (مسنه)
دستیاب نہ ہو، بلکہ مطلق جائز ہے۔
واللہ اعلم۔ دیکھیے: (حاشہ ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث زیر مطالعہ نیز حدیث: 3154 کا فائدہ)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3141