سنن ابن ماجه
كتاب المناسك
کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
63. بَابُ : قَدْرِ حَصَى الرَّمْيِ
باب: رمی کی کنکریاں کتنی بڑی ہونی چاہئیں؟
حدیث نمبر: 3028
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ ، عَنْ أُمِّهِ ، قَالَتْ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ عِنْدَ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ وَهُوَ رَاكِبٌ عَلَى بَغْلَةٍ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِذَا رَمَيْتُمُ الْجَمْرَةَ، فَارْمُوا بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ".
سلیمان بن عمرو بن احوص کی والدہ (ام جندب الازدیہ رضی اللہ عنہا) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کے پاس ایک خچر پر سوار دیکھا، آپ فرما رہے تھے: ”لوگو! جب جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارو تو ایسی ہوں جو دونوں انگلیوں کے درمیان آ جائیں“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/المناسک 78 (1966، 1967)، (تحفة الأشراف: 18306)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/503، 5/270، 379، 6/379) (حسن)» (اس سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (1966) انظر الحديث الآتي (3031،3532)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 485
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3028 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3028
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے۔
اور اس کے شواہد کا ذکر کیا ہے۔
لیکن ان شواہد کی صحت و ضعف کی طرف اشارہ نہیں کیا جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر حسن قراردیا ہے اور اس کی بابت سیر حاصل بحث کی ہے۔
محققین کی اس بحث سے تحسین حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔
لہذا مذ کورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بناء پرقابل عمل اور قابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے۔ (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 25/ 495 /496، وصحيح أبي داؤد (مفصل)
للألباني، رقم: 1715)
(2)
عالم کو چاہیے کہ ہر مقام پر موقع کی مناسبت سے مسائل بیان کرے۔
(3)
حج کے دوران میں وعظ و نصیحت کرنا اور مسائل بیان کرنا درست ہے۔
(4)
وعظ یا مسائل بیان کرنے کے دوران میں مقام یا بلند چیز پر کھڑا ہونا مناسب ہےخاص طور پر جب کہ حاضرین کی تعداد زیادہ ہو تو منبر وغیرہ پر خطبہ دینا چاہیے۔
منبر نہ ہو تو زمین پر کھڑے ہوکر یا سواری پر بھی خطاب کیا جا سکتا ہے۔
(5)
منی میں تین ستون بنے ہوئے ہیں۔
جنھیں کنکریاں ماری جاتی ہیں۔
ہر ستون جمرہ کہلاتا ہے۔
بڑے جمرے کا نام جمرة العقبة ہے۔
مسجد خیف کی طرف سے آئیں تویہ سب آخر میں پڑتا ہے۔
اور اگر طريق المشاة پر چلتے ہوئے مکہ سے منی پہنچیں تو یہ سب سے پہلے آتا ہے۔
دس ذی الحجہ کو صرف اس کی رمی کی جاتی ہے نیز اس کی رمی کے بعد دعا نہ کرنا سنت ہے۔
درمیانی جمرے کو الحمرة الوسطي اور چھوٹے جمرے کو الجمرة الاولي کہتے ہیں۔
مسجد خیف سے جمرات کی طرف آئیں تو سب سے پہلے یہی آتا ہے نیز دس ذوالحجہ کے سوا ایام میں سب سے پہلے اس کی رمی کی جاتی ہے۔
(4)
عام لوگ جمرات کو شیطان کہتے ہیں یہ درست نہیں۔
یہاں کنکریاں مارنا حج کی عبادت کا ایک حصہ ہے اور عبادت کی جگہ کو شیطان کہنا انتہائی نامناسب ہے۔
(5)
جمرات پر بڑی بڑی کنکریاں پتھر یا جوتے مارنا سنت کے خلاف اور غلو ہے جس سے عمل کا ثواب ضائع ہوجاتا ہے۔
(6)
کنکریوں کی مقدار کے لیے حدیث میں (حصي الخذف)
کے الفاظ ہیں یعنی ایسی کنکریاں جنھیں دو انگلیوں میں پکڑ کر دور پھینکا جا سکےاس لیے ترجمہ ”چھوٹی کنکریاں“ کیا گیاہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3028
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1966
´رمی جمرات کا بیان۔`
والدہ سلیمان بن عمرو بن احوص رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوار ہو کر بطن وادی سے جمرہ پر رمی کرتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر کنکری پر تکبیر کہتے تھے، ایک شخص آپ کے پیچھے تھا، وہ آپ پر آڑ کر رہا تھا، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو لوگوں نے کہا: فضل بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں، اور لوگوں کی بھیڑ ہو گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! تم میں سے کوئی کسی کو قتل نہ کرے (یعنی بھیڑ کی وجہ سے ایک دوسرے کو کچل نہ ڈالے) اور جب تم رمی کرو تو ایسی چھوٹی کنکریوں سے مارو جنہیں تم دونوں انگلیوں کے بیچ رکھ سکو۔“ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1966]
1966. اردو حاشیہ:
➊ الجمرۃ کے لغت میں کئی معنی ہیں: دہکتا ہوا کوئلہ ایسا قبیلہ جوکسی اور سے ملا نہ ہو اور تین سو یا ایک ہزار سور ماؤں کی جماعت کو جمرہ کہتے ہیں۔ ایک قبیلے کا دوسروں کے مقابلہ میں جمع ہو جانا بھی جمرہ کہلاتا ہے۔ اور اسی مناسبت سےان جگہوں کو جمرہ یا جمرات کہتے ہیں جہاں حاجی کنکریاں مارتے ہیں۔ یہ مقام اصل میں چھوٹی کنکریاں کے ڈھیرسے تھے۔ (چھوٹے چھوٹے ٹیلے تھے) جو مکہ کی جانب میں ہے اسے جمرہ کبریٰ اور جمرۂ عقبہ کہتے ہیں۔ جومنی ٰ کی طرف ہے اسے جمرۂ صغریٰ اور ان کے درمیان والے کو جمرۂ وسطی کہا جاتا ہے۔
➋ «حصى الخذف» کی توضیح کے لیے دیکھیے حدیث: 1905فائدہ:35)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1966
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:361
361- سلیمان بن عمروہ اپنی والدہ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بطن وادی سے جمرہ کو کنکریاں مارے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خچر پر سوار تھے اور فرما رہے تھے: ”اے لوگو! تم اطمنان رکھو تم ایک دوسرے کو تنگ نہ کرو اور تم پر لازم ہے کہ اتنی (چٹکی میں آجانے والی) کنکریاں استعمال کرو۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:361]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت کو بھی دینی تعلیم حاصل کرنی چاہیے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ سادگی کی بہت زیادہ اہمیت ہے، جو لوگ ہر معاملہ میں تکلفات سے کام لیتے ہیں، وہ سراسر خسارے اور دھوکے میں ہیں۔ سادگی قرآن وحدیث کے مطابق ہونی چاہیے نہ کہ رہبانیت اور گندگی سے لت پت لوگوں کی طرح ہونی چاہیے، سادگی ہو مگر نفاست کے ساتھ، صاف ستھرا اور خوبصورت لباس پہننا سادگی کے خلاف نہیں ہے، اور نہ ہی یہ تکبر ہے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حج سواری پر بیٹھ کر کرنا بھی درست ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ دوران حج و عمرہ یا کسی بھی موقع پر جہاں بھیٹر ہولوگوں کو تکلیف نہیں دینی چاہیے۔ دوران رمی کنکری استعمال کرنی چاہیے نہ کہ جوتے اور بڑے پتھر۔
اس موقع پر امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی قابل تعریف تحقیق پیش خدمت ہے:
(رمی کی بدعات) جمرات کی رمی کے لیے غسل، رمی سے پہلے کنکریوں کو دھونا، اللہ اکبر کی جگہ سبحان اللہ یا اس کے علاوہ کوئی اور ذکر کرنا، رمی کے وقت ہر کنکری پھینکتے وقت یوں کہنا
”بسم الله، الله اکبر، صدق الله
“ وغيره، و
«لوكره الكافرون» کو مسنون قرار دینا
(بدعت ہے)۔ رمی کے لیے بعض کیفیتوں کی پابندی کرنا جیسا کہ کسی نے کہا: اپنے دائیں انگو ٹھے کا کنارہ انگشت شہادت کے وسط میں رکھے گا، وغیرہ وغیرہ، بدعت ہے۔ رمی کر نے والے کے موقف
(کھڑے ہونے کی جگہ) کی تعیین: یہ کہ اس کے اور جس کے رمی کرنی ہے، اس کے درمیان پانچ ہاتھ یا اس سے زائد کا فاصلہ ہو، جمرات کی جوتوں کے ساتھ رمی
(چھترول) کرنا، یہ تفصیل با حوالہ دیکھنے کے لیے
(بدعات کا انسائیکلو پیڈیا: 603، 602) دیکھیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 361