ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب لونڈی زنا کرے تو اسے کوڑے مارو، پھر زنا کرے تو پھر کوڑے مارو، اگر اب بھی زنا کرے تو پھر کوڑے مارو، اس کے بعد اگر زنا کرے تو اسے بیچ دو خواہ ایک «ضفیر» ہی کے بدلے ہو، اور «ضفیر» رسی کو کہتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17909، ومصباح الزجاجة: 908)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/65) (صحیح)» (سند میں عمّار بن أبی فروہ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2921، تراجع الألبانی: رقم: 488)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2566
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) لونڈی یا غلام کورجم کی سزا نہیں دی جا سکتی۔
(2) لونڈی یا غلام اگر زنا کرے تو اسے پچاس کوڑے مارے جائیں گے۔ ارشاد باری تعا لیٰ ہے: ﴿وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ۚ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُم ۚ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۚ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ ۚ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ﴾ ترجمہ: اور تم میں سے جس کسی کو آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی پوری وسعت وطاقت نہ ہو تو وه مسلمان لونڈیوں سے جن کے تم مالک ہو (اپنا نکاح کر لے) اللہ تمہارے اعمال کو بخوبی جاننے واﻻ ہے، تم سب آپس میں ایک ہی تو ہو، اس لئے ان کے مالکوں کی اجازت سے ان سے نکاح کر لو، اور قاعده کے مطالق ان کے مہر ان کو دو، وه پاک دامن ہوں نہ کہ علانیہ بدکاری کرنے والیاں، نہ خفیہ آشنائی کرنے والیاں، پس جب یہ لونڈیاں نکاح میں آ جائیں پھر اگر وه بے حیائی کا کام کریں تو انہیں آدھی سزا ہے اس سزا سے جو آزاد عورتوں کی ہے۔
(3) لونڈی اورغلام کو سزائے موت نہ دینے کی حکمت یہ ہے اس صورت میں آقا کا نقصان ہوتا ہے حالانکہ وہ جرم میں شریک نہیں ہے۔
(4) غلام یا لونڈی کو جلاوطن نہیں کیا جاتا اسے جلاوطن کی صورت یہی ہے اس کو کسی دوسرے اور مالک ہاتھ بیچ دیا جائےتاکہ اس کا ماحول تبدیل ہواوروہ اس گناہ سے باز آ جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2566