سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: حدود کے احکام و مسائل
The Chapters on Legal Punishments
12. بَابُ : مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ
12. باب: قوم لوط کے عمل (اغلام بازی) کی سزا کا بیان۔
Chapter: Those Who Do The Action Of The People Of Lut
حدیث نمبر: 2563
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ازهر بن مروان ، حدثنا عبد الوارث بن سعيد ، حدثنا القاسم بن عبد الواحد ، عن عبد الله بن محمد بن عقيل ، عن جابر بن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن اخوف ما اخاف على امتي عمل قوم لوط".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي عَمَلُ قَوْمِ لُوطٍ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے وہ قوم لوط کے عمل یعنی اغلام بازی کا ہے ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: ابن الطلاع مالکی أقضیۃ الرسول ﷺ میں کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے لواطت میں رجم ثابت نہیں ہے اور نہ اس کے بارے میں آپ کا کوئی فیصلہ ہی ہے، بلکہ ابن عباس، ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو، اور بیہقی نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے ایک اغلام باز کو رجم کیا (۸/۲۳۲)، شافعی کہتے ہیں کہ ہمارا یہی قول ہے کہ وہ رجم کیا جائے، چاہے شادی شدہ ہو یا کنوارا، اور بیہقی نے روایت کی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک مفعول کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کیا، تو اس دن سب سے زیادہ سخت رائے علی رضی اللہ عنہ نے دی اور کہا: اس گناہ کو کسی امت نے نہیں کیا سوائے ایک امت کے، تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس کو آگ سے جلا دیں، تو صحابہ کرام نے اس کو آگ سے جلانے پر اتفاق کیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ اس کو آگ سے جلا دو، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، اس کی سند میں ابراہیم بن ابی رافع مدینی ضعیف راوی ہے، بعضوں نے اس کو جھوٹا کہا ہے، لیکن اس کا دوسرا طریق بھی ہے، جس سے روایت صرف مرسل ہے۔ ابوداود نے صحیح سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ اغلام بازی کرنے والے کو رجم کیا جائے گا، اور بیہقی نے صحیح سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ ان سے اغلام بازی کرنے والے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: سب سے اونچے مکان سے اوندھا کر کے گرا دیا جائے، پھر پتھروں سے کچلا جائے۔ اغلام بازی متفقہ طور پر حرام اور کبیرہ گناہ ہے، لیکن اس کی سزا کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، اوپر بعض صحابہ کا مذہب مذکور ہوا کہ اس کی سزا قتل ہے، چاہے وہ غیر شادی شدہ ہو، اور فاعل اور مفعول دونوں اس سزا میں برابر ہیں، یہی امام شافعی کا مسلک ہے، اور اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کریں گرچہ وہ شادی شدہ نہ ہوں بشرطیکہ مفعول پر جبر نہ ہوا ہو، بعض لوگوں نے اس پر صحابہ کا اجماع نقل کیا ہے، اور بغوی نے شعبی، زہری، مالک، احمد اور اسحاق سے نقل کیا کہ وہ رجم کیا جائے، شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔ ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اگر زانی کا دو بار رجم درست قرار دیا جائے تو اغلام باز کو بھی رجم کیا جائے گا، منذری کہتے ہیں کہ اغلام بازی کرنے والے کو ابوبکر، علی، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم، اور ہشام بن عبدالملک نے زندہ جلایا۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ زیادہ واضح بات یہ ہے کہ اغلام باز کی حد زانی کی حد ہے، اگر وہ شادی شدہ ہو تو رجم کیا جائے گا، ورنہ کوڑے مارے جائیں گے اور جلا وطن کیا جائے گا، اور جس کے ساتھ یہ فعل قبیح کیا گیا ہو یعنی مفعول کو کوڑے لگائے جائیں گے، اور جلا وطن کیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام جو سزا مناسب سمجھے وہ دے، لیکن نہ رجم ہو گا اور نہ کوڑے لگائے جائیں گے۔ نواب صدیق حسن فرماتے ہیں کہ فاعل اور مفعول کے قتل کرنے کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا حکم صحیح اور ثابت ہے، اور صحابہ کرام نے اس حکم کی تنفیذ فرمائی یہ بھی ثابت ہے، اور انہوں نے اس عظیم فحش کام کرنے والوں کو شادی اور غیر شادی کی تفریق کے بغیر قتل کیا، اور ان کے زمانے میں ایسا کئی بار ہوا، اور ان میں سے کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی، جب کہ مسلمان کے خون بہائے جانے جیسے مسئلے پر کسی مسلمان کے لیے خاموشی جائز نہیں ہے، اور یہ وہ عہد تھا کہ حق بات جو بھی ہو اور جہاں سے بھی ہو مقبول ہوتی تھی، تو اگر اغلام باز کا زانی کے سلسلے کے وارد دلائل کے عموم میں اندراج صحیح ہو تو ہر فاعل چاہے وہ شادی ہو یا غیر شادی شدہ کے قتل کے سلسلے میں وارد دلیل سے وہ عموم مخصوص ہو جائے گا، (ملاحظہ ہو: الروضۃ الندیۃ ۳/۲۸۳- ۲۸۶)

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحدود 24 (1457)، (تحفة الأشراف: 2367)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/382) (حسن)» ‏‏‏‏ (شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں عبد اللہ بن محمد بن عقیل منکر الحدیث ہیں)

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (1457)
ابن عقيل ضعيف
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 471

   جامع الترمذي1457جابر بن عبد اللهأخوف ما أخاف على أمتي عمل قوم لوط
   سنن ابن ماجه2563جابر بن عبد اللهأخوف ما أخاف على أمتي عمل قوم لوط

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2563 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2563  
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگرمحققین نے صیحح قرار دیا ہےلہٰذا مذکورہ روایت صیحح ہونے کی صورت میں درج ذیل مسائل کا استنباط کیا جاسکتا ہے۔
مزیدتفصیل کے لیے دیکھیے:  (الإروء للألبانی رقم: 235)

(2)
رسول اللہ ﷺنے امت کے بارے جن خطرات کا اظہار فرمایا ہمیں چاہیے ان معاملات میں زیادہ احتیاط کریں
(3)
  اگر کوئی شخص اپنے لیے اس گناہ میں ملوث ہونے کا خطر ہ محسوس کرے توفوراً اسے درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے:

     (1)
اگر وہ غیر شادی شدہ ہے توجلد از جلد شادی کرے تاکہ فطری ضرورت کی تسکین کا جائز ذریعہ میسرآ جائے۔

     (2)
جوفرد فتنے کا باعث بن رہا ہے اسے میل جول کم سےکم کر دے۔

     (3)
ایسے شخص کو نظربھرکے نہ دیکھے نیز اس کے جسمانی محاسن کی طرف توجہ نہ کرے اور غض بصر(نظرجکھا کر رکھنے)
کا اہتمام کرے۔

     (4)
قرآن مجید اور احادیث شریفہ میں سے ایسے مقامات کا مطالعہ کرے جن میں بدکاری کی شناعت اس کے گناہ اور اس پر اللہ کے عذاب نازل ہونے کا ذکر ہے۔

     (5)
اس بات پر غورکرے اس جرم کاعلم عام لوگو ں کوہوگیا توکس قدر بدنامی ہو گی اور یہ بھی غور کرے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا جرم پوشیدہ نہیں۔

     (6)
جذبات کی انگیخت کرنے والی کہانیاں اورناول اور اس قسم کی فلمیں اور ڈرامے وغیرہ دیکھنے سے اجتناب کرے۔

     (7)
نفلی روزے زیادہ رکھے۔

     (8)
اللہ تعالیٰ سے پاک دامنی کی دعا ئیں کرے وغیرہ۔

(4)
اگرکوئی شخص اس گناہ میں ملوث ہو چکا ہے لیکن اس کا راز فاش نہیں ہوا اسے سوچنا چاہیےکہ اگراب تک اللہ تعالیٰ نے پردہ رکھا ہےتوکسی موقع پراسے فاش بھی کرسکتا ہے پھر کتنی شرمندگی اورندامت ہوگی اورقیامت کو جب سب کے سامنے یہ راز فاش ہو گا تو کس قدررسوائی ہوگی۔
یہ سوچ کر فوراً توبہ کرے اورمذکورہ بالااحتیاطی تدابیر اختیار کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2563   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.