مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2545
اردو حاشہ: فوائد ومسائل: مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق سمیت دیگرمحققین نے ضعیف قراردیا ہے تاہم بعض علماء نے اس حدیث کامفہوم بیان کیا ہے کہ حد اس وقت نافذ کرنی چاہیے جب جرم اس انداز سے ثابت ہو جائے کہ شک شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔ حضرت ماعز اسلمی سے زنا کا جرم سرزد ہوگیا تو انھوں نےرسول اللہ ﷺ کی خدمت آ کراعترف کرلیا چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: شاید تونے بوسہ لیا ہوگا، یا ہاتھ لگایا ہوگا یا نگاہ ڈالی ہوگی۔ جب انھوں نےصراحت سے اس غلطی کا اعترف کیا، جس کی سزا رجم ہے تب رسول اللہﷺنے انھیں رجم کی سزا دی۔ (صیحح البخاري، الحدود، باب ھل یقول الإمام للمقر لعلک لمست أوغمزت، حدیث: 2864)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2545
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1047
´زانی کی حد کا بیان` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” حدود کو دفع کرو جہاں تک اس کے دفع کرنے کی گنجائش پاؤ۔“ اسے ابن ماجہ نے نکالا ہے اور اس کی سند ضعیف ہے اور اس کو ترمذی اور حاکم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطہ بیان کیا ہے۔ جس کے الفاظ ہیں۔ ” مسلمانوں سے جہاں تک حدود کو ہٹا سکتے ہو ہٹاؤ۔“ یہ بھی ضعیف ہے اور بیہقی نے اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے روایت کیا ہے اس کے الفاظ ہیں۔ ” شبہات کی وجہ سے حدود کو دفع کرو۔“ «بلوغ المرام/حدیث: 1047»
تخریج: «أخرجه ابن ماجه، الحدود، باب الستر علي المؤمن ودفع الحدود بالشبهات، حديث:2545.* فيه إبراهيم بن الفضل المخزومي وهو متروك (تقريب) وللحديث شواهد ضعيفة عند الترمذي، الحدود، حديث:1424 وغيره، وحديث عائشة: أخرجه الترمذي، الحدود، حديث:1424، والحاكم:4 /285، وسنده ضعيف، يزيد بن زياد الدمشقي متروك، وأثر علي: لم أجده في البيهقي موقوفًا عليه، ولكن أخرجه البيهقي عن علي مرفرعًا:8 /238، وسنده ضعيف أيضًا.»
تشریح: 1. مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم اگر حدیث کا مفہوم یہ لیا جائے کہ حد اس وقت نافذ کرنی چاہیے جب جرم اس انداز سے ثابت ہو جائے کہ شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے جیسا کہ ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ عنہ کے واقعے سے اس کی تائید ہوتی ہے تو اس صورت میں حدیث معناً صحیح ہو گی‘ نیز بعض علماء نے بھی اس مفہوم کی تائید اور توثیق کی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ 2.حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مجرموں کو حدیں لگایا ہی نہ کرو بلکہ مقصد یہ ہے کہ حدود کا نفاذ اس وقت کرنا چاہیے جب جرم پوری طرح ثابت ہو جائے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1047