عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی ٹیک لگا کر کھاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا اور نہ کبھی آپ کے پیچھے پیچھے دو آدمی چلتے تھے۔
وضاحت: ۱؎: «اتکاء»(ٹیک لگانے) سے مراد کیا ہے؟ اس میں اختلاف ہے، صحیح یہی ہے کہ ایک جانب جھک کر کھانا «اتکاء» ہے جیسے دائیں یا بائیں ہاتھ پر یا دیوار کے ساتھ ٹیک لگانا وغیرہ، ٹیک لگا کر کھانا منع ہے، گاؤ تکیہ لگا کر اس پر ٹیک دے کر کھانا، یا ایک ہاتھ زمین پر ٹیک کر کھانا، غرض ہر وہ صورت جس میں متکبرین و مکثرین (تکبر کرنے والوں، زیادہ کھانے والوں) کی مشابہت ہو منع ہے۔ ۲؎”نہ کبھی آپ کے پیچھے پیچھے دو آدمی چلتے تھے“ مطلب: جیسے دینی تعلیم سے غافل عام امراء اور مالداروں کے بارے میں مشاہدہ ہے کہ ان میں تکبر پایا جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأطعمة 17 (3770)، (تحفة الأشراف: 8654)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/165، 167) (صحیح)»
It was narrated from Shu'aib bin 'Abdullah bin 'Amr that his father said:
"The Messenger of Allah was never seen eating while reclining or making two men walk behind him." (Sahih) Other chains with the same meanings.
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث244
اردو حاشہ: (1)(مُتَكِّئاً) کا مطلب یہ ہے کہ کھانا کھاتے ہوئے کسی چیز سے ٹیک لگا کر بیٹھا جائے، بعض علماء نے اس کا مطلب ایک ہاتھ زمین پر ٹکا کر بیٹھنا یا چار زانو بیٹھنا بیان کیا ہے۔ چونکہ ٹیک لگا کر یا زمین پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا متکبروں کا طریقہ ہے اور چار زانو بیٹھ کر وہ آدمی کھاتا ہے جو زیادہ کھانے کا عادی اور پیٹو ہو، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پرہیز فرمایا۔
(2) ایک آدمی آگے چل رہا ہو اور دوسرے لوگ اس کے پیچھے پیچھے چلیں، اس سے آگے والے کا تکبر ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خود کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے اور نہیں چاہتا کہ دوسرے افراد اس کے برابر چلیں، علاوہ ازیں اس میں پیچھے چلنے والوں کی تحقیر ہے اور وہ ابھی گویا اپنے آپ کو اس سے کم تر سمجھتے ہیں۔
(3) اس چیز کو احترام قرار نہیں دیا جا سکتا، جس چیز کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند کیا ہو۔
(4) بعض لوگوں میں یہ رواج ہے کہ جب پیر یا بزرگ چار پائی پر بیٹھا ہو تو وہ اس کے پاس چار پائی پر نہیں بیٹھتے بلکہ زمین پر بیٹھتے ہیں۔ یہ بھی بہت غلط رواج ہے کیونکہ اس میں پیچھے پیچھے چلنے سے بھی زیادہ حقارت پائی جاتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 244