عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس کوئی امانت رکھی گئی تو اس پر تاوان نہیں ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اگر وہ بغیر اس کی کسی کوتاہی یا خیانت کے برباد ہو جائے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8780، ومصباح الزجاجة: 842) (حسن)» (سند میں ایوب بن سوید اور مثنی بن صباح ضعیف ہیں، لیکن متابعات کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2315، الإرواء: 1547، و التعلیق علی الروضہ الندیہ)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف المثني بن الصباح: ضعيف وله متابعات ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 465
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2401
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) کسی کو جو چیز حفاظت کےلیے دی جاتی ہے اسے ودیعۃ کہتےہیں۔
(2) کسی کی امانت کی حفاظت کرنا اور جان بوجھ کر اس میں خیانت نہ کرنا مومنوں کی صفت ہے۔
(3) اگر امانت سنبھالنے والےکی غفلت کی وجہ سے چیز ضائع ہوجائے تواس کا بدل ادا کرنا چاہیے اور اگر اس کے ضائع ہونے میں اس کی غفلت کا دخل نہ ہوتو وہ ذمہ دار نہیں ہو گا۔
(4) مذکورہ روایت کوبعض محققین نے حسن قرار دیا ہے۔ مزید دیکھیے: (الإرواء، رقم: 1547، والصحیحة رقم: 2315)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2401