ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”بدوی (دیہات میں رہنے والے) کی گواہی شہری (بستی میں رہنے والے) کے خلاف جائز نہیں“۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2367
اردو حاشہ: فوائدومسائل:
(1) اس کی وجہ یہ ہے کہ خانہ بدوش دین واخلاق اورکردار کےلحاظ سےعموماً کم تر ہوتے ہیں کیونکہ انھیں علماء کے پاس بیٹھنے اور دین سیکھنے کا موقع نہیں ملتا، اس لے ان سے زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ گواہی صحیح نہ دیں گے۔
(2) گواہ کا قابل اعتماد ہونا ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2367
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3602
´شہریوں کے خلاف دیہاتی کی گواہی کے حکم کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”دیہاتی کی گواہی بستی اور شہر میں رہنے والے شخص کے خلاف جائز نہیں۔“[سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3602]
فوائد ومسائل: فائدہ: بدوی بادیہ سے ہے کہ خانہ بدوش کو کہتے ہیں۔ جو ایک جگہ کے ساکن نہیں ہوتے۔ بلکہ مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی بدوی سمجھ دار اور عدول ہو تو فی نفسہ اس کی گواہی معبتر ہوگی۔ خود رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے چاند کی رویئت میں بدوی کی شہادت قبول فرمائی۔ (أبودود، الصوم، باب في شھادة الواحد علی رؤیة ھلال رمضان) اس حدیث سے جو یہ بات سمجھائی گئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ بدوی عموما مستقل آبادیوں کے حالات عادات رسم ورواج اور طور طریقوں سے واقف نہیں ہوتے۔ نیز بڑے سادہ لوح ہوتے ہیں۔ اس لئے مشاہدے میں انھیں غلطی لگنے یاعدم فہم کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے کسی بستی یا شہر کے رہنے والے کے معاملے میں ان کی گواہی پراعتراض واقع ہوگا۔ اس سبب سے اس کی گواہی قبول نہیں کی جا سکتی۔ وہ معاملات جن کا فہم اہل بادیہ کے لئے آسان ہے۔ اس میں ان کی گواہی ہرطرح معتبر ہے۔ اس حدیث میں یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی بھی معاملے میں گواہی تب معتبر ہوگی۔ جب اس معاملے کے عمومی فہم کی استعداد موجود ہو۔ کسی خالص فنی معاملے میں عام انسا نوں کی گواہی معتبر نہ ہوگی۔ جب تک وہ اس معاملے کا فہم نہ رکھتا ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3602