سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: قضا کے احکام و مسائل
The Chapters on Rulings
30. بَابُ : مَنْ لاَ تَجُوزُ شَهَادَتُهُ
30. باب: جن لوگوں کی گواہی جائز نہیں ہے ان کا بیان۔
Chapter: The One Whose Testimony Permitted
حدیث نمبر: 2367
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا حرملة بن يحيى ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني نافع بن يزيد ، عن ابن الهاد ، عن محمد بن عمرو بن عطاء ، عن عطاء بن يسار ، عن ابي هريرة ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لا تجوز شهادة بدوي على صاحب قرية".
(مرفوع) حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ بَدَوِيٍّ عَلَى صَاحِبِ قَرْيَةٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: بدوی (دیہات میں رہنے والے) کی گواہی شہری (بستی میں رہنے والے) کے خلاف جائز نہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأقضیة 17 (3602)، (تحفة الأشراف: 14231) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   سنن أبي داود3602عبد الرحمن بن صخرلا تجوز شهادة بدوي على صاحب قرية
   سنن ابن ماجه2367عبد الرحمن بن صخرلا تجوز شهادة بدوي على صاحب قرية
   بلوغ المرام1204عبد الرحمن بن صخر لا تجوز شهادة بدوي على صاحب قرية

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2367 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2367  
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
  اس کی وجہ یہ ہے کہ خانہ بدوش دین واخلاق اورکردار کےلحاظ سےعموماً کم تر ہوتے ہیں کیونکہ انھیں علماء کے پاس بیٹھنے اور دین سیکھنے کا موقع نہیں ملتا، اس لے ان سے زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ گواہی صحیح نہ دیں گے۔

(2)
گواہ کا قابل اعتماد ہونا ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2367   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3602  
´شہریوں کے خلاف دیہاتی کی گواہی کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: دیہاتی کی گواہی بستی اور شہر میں رہنے والے شخص کے خلاف جائز نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3602]
فوائد ومسائل:
فائدہ: بدوی بادیہ سے ہے کہ خانہ بدوش کو کہتے ہیں۔
جو ایک جگہ کے ساکن نہیں ہوتے۔
بلکہ مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔
اگر کوئی بدوی سمجھ دار اور عدول ہو تو فی نفسہ اس کی گواہی معبتر ہوگی۔
خود رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے چاند کی رویئت میں بدوی کی شہادت قبول فرمائی۔
(أبودود، الصوم، باب في شھادة الواحد علی رؤیة ھلال رمضان) اس حدیث سے جو یہ بات سمجھائی گئی ہے۔
وہ یہ ہے کہ بدوی عموما مستقل آبادیوں کے حالات عادات رسم ورواج اور طور طریقوں سے واقف نہیں ہوتے۔
نیز بڑے سادہ لوح ہوتے ہیں۔
اس لئے مشاہدے میں انھیں غلطی لگنے یاعدم فہم کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
اس لئے کسی بستی یا شہر کے رہنے والے کے معاملے میں ان کی گواہی پراعتراض واقع ہوگا۔
اس سبب سے اس کی گواہی قبول نہیں کی جا سکتی۔
وہ معاملات جن کا فہم اہل بادیہ کے لئے آسان ہے۔
اس میں ان کی گواہی ہرطرح معتبر ہے۔
اس حدیث میں یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی بھی معاملے میں گواہی تب معتبر ہوگی۔
جب اس معاملے کے عمومی فہم کی استعداد موجود ہو۔
کسی خالص فنی معاملے میں عام انسا نوں کی گواہی معتبر نہ ہوگی۔
جب تک وہ اس معاملے کا فہم نہ رکھتا ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3602   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.