صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزوں میں برکت ہے: پہلی یہ کہ مقررہ مدت کے وعدے پر بیع کرنے میں، دوسری: مضاربت میں، تیسری: گیہوں اور جو ملانے میں جو کہ گھر کے کھانے کے لیے ہو، نہ کہ بیچنے کے لیے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4963، ومصباح الزجاجة: 804) (ضعیف جدا)» (سند میں صالح صہیب، عبد الرحمن بن داود اور نصر بن قاسم وغیرہ سب مجہول راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 2100)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا نصر: مجهول،وصالح (بن صهيب بن سنان الرومي): مجهول الحال (تقريب: 7123،2870) وأورده ابن الجوزي في الموضوعات (2/ 248،249) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 461
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2289
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: مقارضہ کے دومفہوم بیان کیے گئے ہیں۔ ایک کسی کو قرض دینا، دوسرا مضاربت کے طریقے پر کاروبار میں شریک ہونا، یعنی ایک شخص کی رقم ہو اور دوسرا کام کرے، اور نفع ان کے درمیان طے شدہ نسبت سے تقسیم کیا جائے۔ یہ کاروبار جائز ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2289
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 765
´مضاربت کا بیان` سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تین کام بڑے بابرکت ہیں۔ ایک مدت مقررہ تک بیچنا اور مضاربت کرنا اور گندم میں جو ملانا گھر کے لئے، فروخت کرنے کے لئے نہیں۔“ اسے ابن ماجہ نے ضعیف سند سے روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 765»
تخریج: «أخرجه ابن ماجه، التجارات، باب الشركة والمضاربة، حديث:2289.* عبدالرحيم بن داود "مجهول بالنقل، حديثه غير محفوظ" قاله العقيلي، ونصر مجهول، وصالح مجهول الحال.»
تشریح:
راویٔ حدیث: «حضرت صہیب رضی اللہ عنہ» ابویحییٰ صہیب بن سنان رومی۔ اصل میں عربی ہیں۔ نمر بن قاسط بن وائل قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ رومیوں نے انھیں بچپن میں قید کر لیا تھا۔ انھی میں نشوونما پائی‘ اس وجہ سے رومی کہلائے۔ ایک قول یہ ہے کہ جب یہ بڑے ہوئے اور سن ِ شعور کو پہنچے تو ان کے ہاں سے بھاگ کر مکہ میں پہنچ گئے اور عبداللہ بن جدعان کے حلیف بن گئے۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ بنو کلب نے انھیں رومیوں سے خرید لیا اور انھیں مکہ میں لے آئے اور وہاں عبداللہ بن جدعان نے انھیں خرید لیا۔ مشہور صحابی ہیں۔ قدیم الإسلام ہیں۔ اللہ کی راہ میں انھیں بہت اذیتیں دی گئیں‘ پھر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے اور مدینہ منورہ ہی میں ۳۸ ہجری میں وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 765