عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو مدینہ والے ناپ تول میں سب سے برے تھے، اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ: «ويل للمطففين»”خرابی ہے کم تولنے والوں کے لیے الخ“ اتاری اس کے بعد وہ ٹھیک ٹھیک ناپنے لگے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2223
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) کَیْل کا مطلب ٹوپے وغیرہ سے کسی چیز کی مقدر معلوم کرنا ہے۔ اہل عرب غلہ وغیرہ تولنے کے بجائے ماپ کر خرید بیچ لیتے تھے۔ ہمارے ہاں دیہات میں یہ رواج باقی ہے۔ مائعات (تیل، پٹرول وغیرہ) تو ہر جگہ ماپ کر ہی فروخت ہوتی ہیں۔
(2) اہل مدینہ کا ماپ براہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ماپتے وقت بہت بے احتیاطی کرتے تھے جس سے ماپی ہوئی چیز وصول کرنے والے کو نقصان ہوتا تھا۔
(3) جان بوجھ کر کم ماپنا یا کم تولنا بڑا گناه ہے لیکن احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے کسی کا نقصان ہوجانا بھی بری بات ہے۔
(4) صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآن مجید کے احکام اور نبیﷺ کے ارشادات پرعمل کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے تھے بلکہ فوراً عمل کرتے تھے۔ مسلمانوں کا یہی رویہ ہونا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2223