عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم یا تو حنث (قسم توڑنا) ہے یا ندامت (شرمندگی) ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ قسم اکثر ان دونوں باتوں سے خالی نہیں ہوتی، آدمی اکثر غصے میں بے سوچے سمجھے قسم کھا بیٹھتا ہے کہ فلانی چیز نہ کھائیں گے، یا فلانے سے بات نہ کریں گے، پھر ایسی ضرورت پیش آتی ہے کہ قسم توڑنی پڑتی ہے، اور جب توڑے تو کفارہ دینا پڑا، مال بے فائدہ خرچ ہوا، اور ندامت اور شرمندگی بھی ہوئی، اگر نہ توڑا تو بھی ندامت ہوئی کہ قسم کی وجہ سے ایک لذت سے محروم رہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7434، ومصباح الزجاجة: 739) (ضعیف)» (سند میں بشار بن کدام ضعیف راوی ہے)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2103
اردو حاشہ: فائدہ: یہ روایت ضعیف ہے۔ صحیح روایت یہ ہے کہ غلط قسم توڑ کر کفارہ ادا کر دیا جائے اور جو کام صحیح ہو اسے کر لیا جائے۔ یہ اصرار نہ کیا جائے کہ میں نے فلاں کار خیر نہیں کرنا کیونکہ میں نے قسم کھا لی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2103