بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کہے اگر ایسا کروں تو اسلام سے بری ہوں، اگر وہ جھوٹا ہے تو ویسا ہی ہے جیسا اس نے کہا، اور اگر وہ اپنی بات میں سچا ہے تو بھی اسلام کی جانب صحیح سالم سے نہیں لوٹے گا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ اس نے اسلام کی عظمت تسلیم نہیں کی، اور دین کو ایسا حقیر سمجھا کہ بات بات پر اس سے جدا ہو جانے کی شرط لگاتا ہے، مسلمان کو ہرگز ایسی شرط نہ لگانی چاہئے، گو وہ کتنا ہی بڑا کام ہو، اپنا دین سب سے زیادہ پیارا ہے، اور سب پر مقدم ہے، کوئی کام ہو یا نہ ہو، دین کی شرط لگانے سے کیا فائدہ؟ اور حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جو کوئی ایسی شرط لگائے، پھر اس میں سچا بھی ہو جب بھی گنہگار ہو گا، اور اس کے دین میں خلل آئے گا۔
It was narrated from Abdullah bin Buraidah that his father told that :
the Messenger of Allah (ﷺ) said: "Whoever says: 'I have nothing to do with Islam,' if he is lying then he is as he said, and if he is telling the truth, his Islam will not be sound."
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2100
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس طرح کی قسم کھانا سخت منع ہے۔
(2) اس انداز کی بات میں اسلام کی بے قدری پائی جاتی ہے جبکہ سچے مسلمان کی نظر میں اسلام سے قیمتی کوئی چیز نہیں اس کے لیے وہ جان بھی قربان کر سکتا ہے۔ پھر جس کی نظر میں اسلام کی یہ قدر ہو کہ معمولی باتوں پر اسلام سے خارج ہونے کے الفاظ بولنے لگے اس شخص کا اسلام کس قدر ادنیٰ اور نکما ہوگا۔
(3) علامہ خطابی فرماتے ہیں کہ ایسی قسم کا کفارہ نہیں ہے اس کا عتاب اس کے دین کا نقصان قرار دیا گیا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2100
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3803
´اسلام سے برأت اور لاتعلقی کی قسم کھانے کا بیان۔` بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کہا: (اگر میں نے یہ کیا ہوا تو) میں اسلام سے بری اور لاتعلق ہوں، تو اگر وہ جھوٹا ہے تو وہ ویسا ہی ہے جیسا اس نے کہا، اور اگر وہ سچا ہے تو بھی وہ اسلام کی طرف صحیح سالم نہیں لوٹے گا“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3803]
اردو حاشہ: ”نہیں لوٹے گا۔“ یعنی وہ الفاظ کہنے کی بنا پر گناہ گار ہوگا اور اس کے ایمان میں کمی واقع ہوگی کیونکہ یہ انتہائی قبیح الفاظ ہیں۔ گویا اس نے اسلام کو معمولی چیز خیال کیا۔ سچا ہو تب بھی ایسے لاابلای پن کی کوئی گنجائش نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3803
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3258
´اسلام سے براءت اور اسلام کے سوا کسی اور مذہب میں چلے جانے کی قسم کھانے کا بیان۔` بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص قسم کھائے اور کہے میں اسلام سے بری ہوں (اگر میں نے فلاں کام کیا) اب اگر وہ جھوٹا ہے تو اس نے جیسا ہونے کو کہا ہے ویسا ہی ہو جائے گا، اور اگر سچا ہے تو بھی وہ اسلام میں سلامتی سے ہرگز واپس نہ آ سکے گا۔“[سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3258]
فوائد ومسائل: اسلام اللہ کادین اور بندوں کے لئے عظیم ترین نعمت ہے۔ چنانچہ سچے جھوٹے کسی طرح سے بھی اس کے بری ہونے کے الفاظ زبان پر لانا جائز اور حرام ہے۔ اگر کسی نے سچے ہوتے ہوئے اس طرح کہہ دیا تو بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوا۔ علامہ خطابی فرماتے ہیں۔ کہ ایسی قسم کا مالی کفارہ نہیں ہے۔ اس کا عتاب اس کے دین کا نقصان قرار دیا گیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3258