(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعبد الله بن عامر بن زرارة ، قالا: حدثنا ابو بكر بن عياش ، عن عاصم ، عن زر ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يخرج في آخر الزمان قوم احداث الاسنان، سفهاء الاحلام، يقولون من خير قول الناس، يقرءون القرآن، لا يجاوز تراقيهم، يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية، فمن لقيهم فليقتلهم فإن قتلهم اجر عند الله لمن قتلهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ النَّاسِ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَمَنْ لَقِيَهُمْ فَلْيَقْتُلْهُمْ فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ عِنْدَ اللَّهِ لِمَنْ قَتَلَهُمْ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اخیر زمانہ میں کچھ نوعمر، بیوقوف اور کم عقل لوگ ظہور پذیر ہوں گے، لوگوں کی سب سے اچھی (دین کی) باتوں کو کہیں گے، قرآن پڑھیں گے، لیکن ان کے حلق سے نہ اترے گا، وہ اسلام سے ویسے ہی نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے، تو جو انہیں پائے قتل کر دے، اس لیے کہ ان کا قتل قاتل کے لیے اللہ تعالیٰ کے نزدیک باعث اجر و ثواب ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اخیر زمانہ سے مراد خلافت راشدہ کا آخری زمانہ ہے اس لئے کہ خوارج کا ظہور اسی وقت ہوا، اور نہروان کا واقعہ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ۳۳ ھ میں ہوا، اس وقت خلافت راشدہ کو اٹھائیس برس گزرے تھے، خلافت کے تیس سال کی مدت مکمل ہونے میں صرف دو سال باقی تھے۔ ۲؎: اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ لوگ نوعمر اور نوجوان ہوں گے، کم عمری کی وجہ سے سوج بوجھ میں پختگی نہ ہوگی، بظاہر وہ اچھی باتیں کریں گے، اور ان کی باتیں موافق شرع معلوم ہوں گی، مگر حقیقت میں خلاف شرع ہوں گی۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفتن 24 (2188)، (تحفة الأشراف: 9210)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/81، 113) (صحیح)»
It was narrated that 'Abdullah bin Mas'ud said:
"The Messenger of Allah said: 'At the end of time there will appear a people with new teeth (i.e., young in age), with foolish minds. They will speak the best words ever uttered by mankind and they will recite the Qur'an, but it will not go any deeper than their collarbones. They will pass through Islam like an arrow passes through its target. Whoever meets them, let him kill them, for killing them will bring a reward from Allah for those who kill them."
يخرج في آخر الزمان قوم أحداث الأسنان سفهاء الأحلام يقولون من خير قول الناس يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية فمن لقيهم فليقتلهم فإن قتلهم أجر عند الله لمن قتلهم
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث168
اردو حاشہ: (1) آخری زمانے کا مطلب بعض علماء نے خلافت راشدہ کا آخری زمانہ مراد لیا ہے کیونکہ یہ خارجی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ظاہر ہوئے تھے، ممکن ہے قیامت کے قریب بھی ایسے لوگ سامنے آئیں جو انہی گمراہیوں کا شکار ہوں جن میں خارجی مبتلا تھے۔ واللہ أعلم. (2) بدعت، خواہ عقیدہ میں ہو یا عمل میں، کم عقلی کی دلیل ہے۔ گویا بدعت کو وہی شخص ایجاد یا اختیار کرتا ہے جو دین کی سمجھ نہیں رکھتا یا دین کو ناقص سمجھتا ہے۔
(3) گمراہ فرقے اپنی گمراہی کی تائید میں ایسی چیزیں پیش کرتے ہیں، جن سے کم علم آدمی دھوکا کھا جاتا ہے اور ان باتوں کو پختہ دلائل سمجھ بیٹھتا ہے، لیکن اگر ان کے مزعومہ دلائل کو قرآن و حدیث کی روشنی میں پرکھا جائے تو ان کی غلطی واضح ہو جاتی ہے۔
(4) قرآن کے گلے سے آگے نہ گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ زبان سے قرآن پڑھیں گے، لیکن اس کا اثر ان کے دلوں پر نہ ہو گا یا ان کے دل قرآن کی صحیح سمجھ سے محروم ہوں گے۔
(5) بدعتی اپنے خود ساختہ اقوال و افعال ہی کو اسلام سمجھتا ہے، اس لیے وہ اصلی اسلام سے محروم ہو جاتا ہے۔ جس طرح وہ تیر جو شکار کیے جانے والے جانور میں سے آر پار گزر جائے کہنے کو تو اس کا تعلق بھی اس جانور سے قائم ہوا ہے، لیکن حقیقت میں یہ تعلق کالعدم ہے۔ اسی طرح خوارج یا دوسرے اہل بدعت کا تعلق بظاہر تو اسلام سے قائم ہوتا ہے کیونکہ وہ شہادتین کا اقرار کرتے ہیں اور مسلمانوں والے اعمال کرتے ہیں، لیکن بدعت کی وجہ سے ان کی نیکیاں غیر مقبول اور کالعدم ہو جاتی ہیں، اس طرح اسلام سے ان کا تعلق قائم نہیں رہ پاتا۔
(6) اہل بدعت کو پہلے سمجھانا چاہیے اور ان کی غلطیاں واضح کرنی چاہئیں، پھر بھی اگر وہ باز نہ آئیں اور عام مسلمانوں کے لیے گمراہی کا باعث بننے لگیں تو اسلامی حکومت کو ان سے باغیوں کا سا سلوک روا رکھ کے، بزور قوت ان کے فتنہ کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی پہلے خوارج کو سمجھانے کے لیے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا جس کے نتیجے میں ان میں سے بہت سے افراد کی سمجھ میں بات آگئی اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت قبول کر لی۔ جو بغاوت پر مصر رہے ان سے جنگ کی گئی۔ (البداية والنهاية: 4؍292)
(7) فتنے کا خاتمہ کرنے کے لیے اسلامی حکومت سے تعاون نیک کام ہے، جس پر ثواب ملے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 168
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2188
´خوارج کی پہچان۔` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آخری زمانہ ۱؎ میں ایک قوم نکلے گی جس کے افراد نوعمر اور سطحی عقل والے ہوں گے، وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، قرآن کی بات کریں گے لیکن وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے شکار سے تیر آر پار نکل جاتا ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2188]
اردو حاشہ: وضاحت 1؎: اس سے مراد خلافت راشدہ کا اخیر زمانہ ہے، اس خلافت کی مدت تیس سال ہے، خوارج کا ظہور علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا، جب خلافت راشدہ کے دوسال باقی تھے تو علی رضی اللہ عنہ نے نہروان کے مقام پران سے جنگ کی، اور انہیں قتل کیا، خوارج میں نوعمر اور غیر پختہ عقل کے لوگ تھے جو پر فریب نعروں کا شکار ہوگئے تھے۔ اوررسول اکرمﷺکی یہ پیش گوئی ہرزمانہ میں ظاہر ہورہے ہیں آج کے پرفتن دورمیں اس کا مظاہرہ جگہ جگہ نظرآرہا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ دے اورہرطرح کے فتنوں سے محفوظ رکھے آمین۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2188