(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثنا محمد بن الصباح، حدثنا الوليد بن ابي ثور، عن سماك، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: جاء اعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إني رايت الهلال، قال: " اتشهد ان لا إله إلا الله، اتشهد ان محمدا رسول الله " قال: نعم، قال: يا بلال " اذن في الناس ان يصوموا غدا ". حدثنا ابو كريب، حدثنا حسين الجعفي، عن زائدة، عن سماك نحوه بهذا الإسناد. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس فيه اختلاف، وروى سفيان الثوري وغيره، عن سماك، عن عكرمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، واكثر اصحاب سماك رووا عن سماك، عن عكرمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، والعمل على هذا الحديث عند اكثر اهل العلم، قالوا: تقبل شهادة رجل واحد في الصيام، وبه يقول: ابن المبارك، والشافعي، واحمد، واهل الكوفة، قال إسحاق: لا يصام إلا بشهادة رجلين ولم يختلف اهل العلم في الإفطار، انه لا يقبل فيه إلا شهادة رجلين.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ الْهِلَالَ، قَالَ: " أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَتَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ " قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: يَا بِلَالُ " أَذِّنْ فِي النَّاسِ أَنْ يَصُومُوا غَدًا ". حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سِمَاكٍ نَحْوَهُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيهِ اخْتِلَافٌ، وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَأَكْثَرُ أَصْحَابِ سِمَاكٍ رَوَوْا عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: تُقْبَلُ شَهَادَةُ رَجُلٍ وَاحِدٍ فِي الصِّيَامِ، وَبِهِ يَقُولُ: ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ، قَالَ إِسْحَاق: لَا يُصَامُ إِلَّا بِشَهَادَةِ رَجُلَيْنِ وَلَمْ يَخْتَلِفْ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْإِفْطَارِ، أَنَّهُ لَا يُقْبَلُ فِيهِ إِلَّا شَهَادَةُ رَجُلَيْنِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں نے چاند دیکھا ہے، آپ نے فرمایا: ”کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور کیا گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟“ اس نے کہا: ہاں دیتا ہوں، آپ نے فرمایا: ”بلال! لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ کل روزہ رکھیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس کی حدیث میں اختلاف ہے۔ سفیان ثوری وغیرہ نے بطریق: «سماك عن عكرمة عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرسلاً روایت کی ہے۔ اور سماک کے اکثر شاگردوں نے بھی بطریق: «سماك عن عكرمة عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرسلاً ہی روایت کی ہے، ۲- اکثر اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ماہ رمضان کے روزوں کے سلسلے میں ایک آدمی کی گواہی قبول کی جائے گی۔ اور ابن مبارک، شافعی، احمد اور اہل کوفہ بھی اسی کے قائل ہیں، ۳- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ روزہ بغیر دو آدمیوں کی گواہی کے نہ رکھا جائے گا۔ لیکن روزہ بند کرنے کے سلسلے میں اہل علم میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس میں دو آدمی کی گواہی قبول ہو گی۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصیام 14 (2340)، سنن النسائی/الصوم 8 (2115)، سنن ابن ماجہ/الصیام 6 (1652)، سنن الدارمی/الصوم 6 (1724)، (تحفة الأشراف: 6104) (ضعیف) (عکرمہ سے سماک میں روایت میں بڑا اضطراب پایا جاتا ہے، نیز سماک کے اکثر تلامذہ نے اسے ”عن عکرمہ عن النبی صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ …مرسلا روایت کیا ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1652) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (364)، الإرواء (907)، ضعيف سنن النسائي (121 / 2112)، ضعيف أبي داود (507 / 2340 و 508 / 2341) //
قال الشيخ زبير على زئي: (691) إسناده ضعيف /د 2340، ن 2114، جه 1652
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 531
´(روزے کے متعلق احادیث)` سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے چاند دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا ”کیا تو اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا دوسرا کوئی الٰہ نہیں؟“ اس نے کہا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟“ اس نے کہا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بلال اٹھو اور لوگوں میں منادی کر دو کہ کل روزہ رکھا جائے۔“ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے اور نسائی نے اس کے مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 531]
لغوی تشریح 531: فَأَذِّنْ تَأذِین سے ماخوذ امر کا صیغہ ہے۔ مراد اس سے عام اعلان اور منادی ہے۔ یہ حدیث مذہبِ جمھور کی تائید کرتی ہے کہ رمضان کے چاند کے لیے ایک عادل مسلمان کی گواہی کافی ہے۔ اور یہی بات صحیح ہے۔
فائدہ 531: مذکورہ روایت سندًا ضعیف ہے جیسا کہ فاضل محقق نے اس طرف اشارہ کیا ہے، تاہم گزشتہ حدیث جو کہ سنن ابی داؤد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، اسے محققین نے صحیح قرار دیا ہے۔ وہ حدیث یوں ہے، ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ چاند دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ مجھے چاند نظر آگیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس خبر کے مطابق) خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ [ سنن ابي داؤد، الصيام، باب فى شهادة الواحد على رؤية هلال رمضان، حديث: 2342] لہٰذا معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کی گواہی ہی رمضان شروع ہونے کا یقین کرنے کے لیے کافی ہے۔ «والله اعلم»
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 531
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2114
´ماہ رمضان کے چاند (دیکھنے) پر ایک آدمی کی گواہی قبول کرنے کا بیان اور سماک (والی) حدیث میں راویوں کے سفیان پر اختلاف کا ذکر۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (اور) کہنے لگا: میں نے چاند دیکھا ہے، تو آپ نے کہا: ”کیا تم شہادت دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں؟“ اس نے کہا: ہاں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں روزہ رکھنے کا اعلان کر دیا۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2114]
اردو حاشہ: (1) معلوم ہوتا ہے چاند کا دیکھنا اور خبر مل جانا برابر ہیں۔ بشرطیکہ مطلع ایک ہو جیسا کہ پچھلی حدیث کے فوائد میں بیان ہوا۔ (2) ماہ رمضان المبارک کے چاند کے بارے میں جمہور اہل علم کا قول یہی ہے کہ ایک مسلمان کی گواہی کافی ہے جیسا کہ حدیث میں واضح ہے اور یہی صحیح ہے، البتہ بعض فقہاء گواہی کے مدنظر دو مسلمانوں کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں، لیکن عید کے بارے میں ائمہ اربعہ میں اتفاق ہے کہ دو مسلمانوں کی گواہی ضروری ہے کیونکہ عید میں لوگوں کا اپنا مفاد بھی ہوتا ہے، لہٰذا حقوق العباد کی طرح اس میں بھی دو گواہ ہونے چاہئیں جبکہ روزے میں لوگوں کا ذاتی مفاد نہیں، لہٰذا وہاں ایک مسلمان کی خبر کافی ہے کیونکہ یہ خبر ہے شہادت (گواہی) نہیں اورخبر کے لیے ایک معتبر شخص کافی ہے۔ (3)”تو گواہی دیتا ہے؟“ گویا مسلمان ہونا ضروری ہے، نیز وہ قابل اعتبار بھی ہو، یعنی جھوٹ بولنے میں معروف نہ ہو اور فرائض شرع کا پابند ہو، دین کو مذاق نہ بناتا ہو۔ (4) یہ اور آئندہ تینوں روایات ضعیف ہیں لیکن ابوداؤد (حدیث: 2342) میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اسی مفہوم کی صحیح حدیث موجود ہے، اس لیے حدیث میں بیان کردہ مسئلہ اور دیگر مستنبط مسائل درست ہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2114
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1652
´رویت ہلال (چاند دیکھنے) کی گواہی کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے کہا: رات میں نے چاند دیکھا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں“؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بلال اٹھو، اور لوگوں میں اعلان کر دو کہ لوگ کل روزہ رکھیں۔“ ابوعلی کہتے ہیں: ایسے ہی ولید بن ابی ثور اور حسن بن علی کی روایت ہے، اس کو حماد بن سلمہ نے روایت کیا ہے، اور انہوں نے ابن ع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1652]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ تاہم سنن ابوداؤد میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا لوگ چاند دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ مجھے چاند نظر آ گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے (اس خبر کے مطابق) خود بھی روزہ رکھا۔ اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (سنن ابو داؤد، الصیام، باب الشھادۃ الواحد علی رویة ہلال رمضان، حدیث: 2342) محققین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کی گواہی رمضان شروع ہونے کا یقین کرنے کے لئے کافی ہے۔
(2) رویت ہلال کے مسئلے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ کچھ اہل علم کی رائے یہ ہے۔ کہ اگر کسی بھی جگہ رمضان کےچاند کی شرعی طریقے سے رویت ثابت ہوجائے تو تمام مسلمانوں کےلئے روزہ رکھنا لازم ہو جاتا ہے۔ اور اگر اسی طرح کسی بھی جگہ شوال کے چاند کی رویت ثابت ہوجائے تو تمام مسلمانوں کے لئے روزہ چھوڑنا لازم ہوجاتا ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے۔ بعض علمائے کی یہ رائے ہے کہ رمضان کے روزے اور شوال کی عید کے احکام ان کے لئے واجب ہوں گے۔ جو خود چاند دیکھ لیں۔ یا چاند دیکھنے والوں کا مطلع ایک ہوکیونکہ اہل معرفت یعنی ماہرین فلکیات کا اتفاق ہے کہ ہلال کے مطالع مختلف ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہر ملک اپنی رویئت کے مطابق عمل کرے۔ اور اس رویئت کے مطابق عمل ان ملکوں کےلئے واجب ہوگا جن کا مطلع ا س کے مطابق ہو اور جن ممالک کا مطلع اس کے مطابق نہ ہوگا وہ اس کے تابع نہ ہوں گے۔ یہ قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ شیخ الاسلام کے موقف کی بابت لکھتے ہیں۔ کہ مطالع مختلف ہونے کی صورت میں محض عموم کی وجہ سے احکام ہلال ثابت نہ ہوں گے۔ بلاشبہ استدلال کے اعتبار سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول اور موقف قوی ہے اور نظر قیاس سے بھی اس کی تایئد ہوتی ہے۔ دیکھئے: (فتاویٰ اسلامیہ (اُردو: 161/2، مطبوعہ دارالسلام) آجکل ہمارے ہاں بھی بعض لوگ روزے عیدین ار دیگر عبادات جو چاند سے متعلق ہوں سعودی عرب کی رویئت ہلال کے مطابق ادا کرتے ہیں۔ اور اسی رویئت کو اپنے لئے قابل عمل قرار دیتے ہیں۔ اس مسئلے کی بابت سعودی علماء اور مفتیان سے بھی استفسار کیا گیا۔ لہٰذا سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں۔ یہ مسئلہ سعودی عرب کے کبار علماء کی مجلس میں پیش کیا گیا تو ان علماء کی یہ رائے تھی کہ اس مسئلے میں راحج بات یہ ہے کہ اس میں کافی گنجائش ہے۔ اپنے ملک کے علماء کی رائے کے مطابق عمل کرلیا جائے تو یہ جائز ہے۔ شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ کہ میری رائے میں یہ ایک معتدل رائے ہے۔ اور اس سے اہل علم کے مختلف اقوال ودلائل میں تطبیق بھی ہوجاتی ہے۔ آگے چل کر انھوں نے علماء کو مخاطب کرکے فرمایا ہے۔ کہ اہل علم پر واجب ہے۔ کہ ماہ کے آغاز و ا ختتام کے موقع پراس مسئلے کی طرف خصوصی توجہ مبزول کریں۔ اور ایک بات پر متفق ہوجایئں جو انکے اجتہاد کے مطابق حق کے زیادہ قریب ہو۔ پھر اسی کے مطابق عمل کریں۔ اور لوگوں تک بھی اپنی بات پہنچا دیں۔ ان کےحکمرانوں اور عام مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ اس سلسلے میں اپنے علماء کی پیروی کریں۔ اور اس مسئلے میں اختلاف نہ کریں کیونکہ اس سے لوگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہوجایئں گے۔ اور کثرت سے قیل وقال ہونے لگے گی۔ دیکھئے۔ (فتاویٰ اسلامیہ (اُردو) 2/158۔ 159 مطبوعہ دارالسلام) سعودی مفتیان کے فتاویٰ اور دیگر دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ ہر ملک اپنی رویئت اور اپنے علماء کے متفقہ فیصلے کے مطابق ہی روزے عیدیں اور دیگر عبادات بجالایئں۔ ان شاء اللہ اسی میں خیر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1652