سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
Establishing the Prayer and the Sunnah Regarding Them
190. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ التَّسْبِيحِ
190. باب: صلاۃ التسبیح کا بیان۔
Chapter: What was narrated concerning the Prayer of glorification
حدیث نمبر: 1387
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن بشر بن الحكم النيسابوري ، حدثنا موسى بن عبد العزيز ، حدثنا الحكم بن ابان ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للعباس بن عبد المطلب: يا عباس، يا عماه،" الا اعطيك، الا امنحك، الا احبوك، الا افعل لك عشر خصال إذا انت فعلت ذلك، غفر الله لك ذنبك اوله وآخره، وقديمه وحديثه، وخطاه وعمده، وصغيره وكبيره، وسره وعلانيته، عشر خصال: ان تصلي اربع ركعات، تقرا في كل ركعة بفاتحة الكتاب وسورة، فإذا فرغت من القراءة في اول ركعة، قلت وانت قائم: سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله اكبر خمس عشرة مرة، ثم تركع فتقول وانت راكع عشرا، ثم ترفع راسك من الركوع فتقولها عشرا، ثم تهوي ساجدا فتقولها وانت ساجد عشرا، ثم ترفع راسك من السجود فتقولها عشرا، ثم تسجد فتقولها عشرا، ثم ترفع راسك من السجود فتقولها عشرا، فذلك خمسة وسبعون في كل ركعة، تفعل في اربع ركعات، إن استطعت ان تصليها في كل يوم مرة فافعل، فإن لم تستطع ففي كل جمعة مرة، فإن لم تفعل ففي كل شهر مرة، فإن لم تفعل ففي عمرك مرة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرِ بْنِ الْحَكَمِ النَّيْسَابُورِيُّ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ: يَا عَبَّاسُ، يَا عَمَّاهُ،" أَلَا أُعْطِيكَ، أَلَا أَمْنَحُكَ، أَلَا أَحْبُوكَ، أَلَا أَفْعَلُ لَكَ عَشْرَ خِصَالٍ إِذَا أَنْتَ فَعَلْتَ ذَلِكَ، غَفَرَ اللَّهُ لَكَ ذَنْبَكَ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ، وَقَدِيمَهُ وَحَدِيثَهُ، وَخَطَأَهُ وَعَمْدَهُ، وَصَغِيرَهُ وَكَبِيرَهُ، وَسِرَّهُ وَعَلَانِيَتَهُ، عَشْرُ خِصَالٍ: أَنْ تُصَلِّيَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، تَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ، فَإِذَا فَرَغْتَ مِنَ الْقِرَاءَةِ فِي أَوَّلِ رَكْعَةٍ، قُلْتَ وَأَنْتَ قَائِمٌ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً، ثُمَّ تَرْكَعُ فَتَقُولُ وَأَنْتَ رَاكِعٌ عَشْرًا، ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ مِنَ الرُّكُوعِ فَتَقُولُهَا عَشْرًا، ثُمَّ تَهْوِي سَاجِدًا فَتَقُولُهَا وَأَنْتَ سَاجِدٌ عَشْرًا، ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ مِنَ السُّجُودِ فَتَقُولُهَا عَشْرًا، ثُمَّ تَسْجُدُ فَتَقُولُهَا عَشْرًا، ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ مِنَ السُّجُودِ فَتَقُولُهَا عَشْرًا، فَذَلِكَ خَمْسَةٌ وَسَبْعُونَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ، تَفْعَلُ فِي أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ، إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تُصَلِّيَهَا فِي كُلِّ يَوْمٍ مَرَّةً فَافْعَلْ، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَفِي كُلِّ جُمُعَةٍ مَرَّةً، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي كُلِّ شَهْرٍ مَرَّةً، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي عُمُرِكَ مَرَّةً".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے عباس! اے چچا جان! کیا میں آپ کو عطیہ نہ دوں؟ کیا میں آپ سے اچھا سلوک نہ کروں؟ کیا میں آپ کو دس خصلتیں نہ بتاؤں کہ اگر آپ اس کو اپنائیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے اور پچھلے، نئے اور پرانے، جانے اور انجانے، چھوٹے اور بڑے، پوشیدہ اور ظاہر سبھی گناہ بخش دے، وہ دس خصلتیں یہ ہیں: آپ چار رکعت پڑھیں، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ اور کوئی اور سورت پڑھیں، جب پہلی رکعت میں قراءت سے فارغ ہو جائیں تو کھڑے کھڑے پندرہ مرتبہ  «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر» کہیں، پھر رکوع کریں، اور بحالت رکوع اس تسبیح کو دس مرتبہ کہیں، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھائیں اور ان کلمات کو دس مرتبہ کہیں، پھر سجدہ میں جائیں اور بحالت سجدہ ان کلمات کو دس مرتبہ کہیں، پھر سجدہ سے اپنا سر اٹھائیں، اور ان کلمات کو دس مرتبہ کہیں، پھر سجدہ کریں، اور ان کلمات کو دس مرتبہ کہیں، پھر سجدہ سے اپنا سر اٹھائیں اور ان کلمات کو دس مرتبہ کہیں، تو یہ ہر رکعت میں پچھتر (۷۵) مرتبہ ہوا، چاروں رکعتوں میں اسی طرح کریں، اگر آپ سے یہ ہو سکے تو روزانہ یہ نماز ایک مرتبہ پڑھیں، اور اگر یہ نہ ہو سکے تو ہفتہ میں ایک بار پڑھیں، اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو مہینے میں ایک بار پڑھیں، اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اپنی عمر میں ایک بار پڑھیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الدارمی/الصلاة 303 (1297)، (تحفة الأشراف: 6038) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that Ibn ‘Abbas said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said to ‘Abbas bin ‘Abdul-Muttalib: ‘O ‘Abbas, O my uncle, shall I not give you a gift, shall I not give you something, shall I not tell you of something which, if you do it, will expiate for ten types of sins? If you do them, Allah will forgive you your sins, the first and the last of them, the old and the new, the unintentional and the deliberate, the minor and the major, the secret and the open, ten types of sin. Pray four Rak’ah, and recite in each Rak’ah the Opening of the Book (Al-Fatihah) and a Surah. When you have finished reciting in the first Rak’ah, while you are standing, say: Subhan-Allah wal- hamdu Lillah wa la ilaha illallah wa Allahu Akbar (Glory if to Allah, praise is to Allah, none has the right to be worshipped but Allah and Allah is the Most Great) fifteen times. Then bow and say it ten times while you are bowing. Then raise your head from Ruku’ and say it ten times. Then go into prostration and say it ten times while you are prostrating. Then raise your head from prostration and say it ten times. Then prostrate and say it ten times. Then raise your head from prostration and say it ten times. That will be seventy-five times in each Rak’ah. Do that in all four Rak’ah. If you can pray it once each day then do so. If you cannot, then once each week; if you cannot, then once each month. If you cannot, then once in your lifetime.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   سنن ابن ماجه1387عبد الله بن عباسألا أعطيك ألا أمنحك ألا أحبوك ألا أفعل لك عشر خصال إذا أنت فعلت ذلك غفر الله لك ذنبك أوله وآخره وقديمه وحديثه وخطأه وعمده وصغيره وكبيره وسره وعلانيته عشر خصال أن تصلي أربع ركعات تقرأ في كل ركعة بفاتحة الكتاب وسورة فإذا فرغت من القراءة في أول ركعة قلت وأنت
   سنن أبي داود1297عبد الله بن عباسيا عباس، يا عماه، الا اعطيك، الا امنحك، الا احبوك، الا افعل بك عشر خصال

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1387 کے فوائد و مسائل
  الشیخ غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظہ الله، فوائد و مسائل، ابن ماجہ1387  
تخریج الحدیث: [سنن ابي داود: 1297، سنن ابن ماجه: 1387، صحيح ابن خزيمة: 1216، المعجم الكبير للطبراني: 11622، المستدرك للحاكم: 1/318، وسنده، حسنٌ]
ابوحامد احمد بن محمد بن الحسن الشرقی الحافظ کہتے ہیں کہ میں نے امام مسلم رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
«لا يروي فى هذا الحديث إسناد أحسن من هذا .»
اس حدیث کی اس سے بڑھ کر بہتر سند کوئی نہیں بیان کی گئی۔
(الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث للخلیلی: 1/326، وسندہ، صحیحٌ)
ابنِ شاہین رحمہ اللہ (297۔ 385ھ) فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابوداؤد سے سنا:
«أصحّ حديثا فى التسبيح حديث العبّاس .»
نماز ِ تسبیح کے بارے میں سب سے صحیح حدیث، سیدنا عباس کی حدیث ہے۔ (الثقات لابن شاہین: 1356)
حافظ منذری رحمہ اللہ (581۔ 656ھ)لکھتے ہیں:
«صحّح حديث عكرمة عن ابن عبّاس هذا جماعة، منهم: الحافظ أبوبكر الآجري، وشيخنا أبو محمّد عبد الرحيم المصريّ، وشيخنا الحافظ أبو الحسن المقدسيّ .»
اس حدیث کو ائمہ کرام کی ایک جماعت نے صحیح قرار دیا ہے، ان میں سے حافظ ابوبکر الآجری ہیں اور ہمارے شیخ ابو محمد عبدالرحیم المصری ہیں اور ہمارے شیخ حافظ ابوالحسن المقدسی ہیں۔ (الترغیب والترھیب للمنذری: 1/468)
حافظ علائی رحمہ اللہ (694۔ 761ھ)لکھتے ہیں ـ:
«حديث حسن صحيح، رواه أبوداو، د وابن ماجه بسند جيّد إلى ابن عبّاس .»
یہ حدیث حسن صحیح ہے، اس کو امام ابوداؤد اور امام ابنِ ماجہ نے ابنِ عباس سے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ (النقد الصحیح: ص 30)
حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ (723۔ 804ھ)فرماتے ہیں:
«وهذا الإسناد جيّد .»
یہ سند جید ہے۔ (البدر المنیر لابن الملقن: 4/235)
حافظ سیوطی رحمہ اللہ (م 911ھ)فرماتے ہیں:
«وهذا إسناد حسنٌ .»
یہ سند حسن ہے۔ (اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ: 2/35)
اس حدیث کے متعلق حافظ نووی (631۔ 676ھ) اور حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (773۔ 852ھ) کی کلام متناقض ہے۔ بعض اہل علم کا اس حدیث کی صحت کا انکار کرنا بے معنیٰ ہے۔ علمائے کرام نے اس نماز کے ثبوت وفضیلت پر ایک درجن سے زائد تصانیف کی ہیں۔ اس حدیث کے راویوں کے متعلق محدثین کی شہادتیں ملاحظہ ہوں:
1 عبدالرحمن بن بشر بن الحکم النیسابوری: یہ ثقہ ہیں۔
(تقریب التھذیب لابن حجر: 3810)
2 موسیٰ بن عبدالعزیز العدنی: جمہور محدثین کے نزدیک حسن الحدیث ہیں۔ ان کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لا أرٰي به بأسا .» میں اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتا۔
(العلل ومعرفۃ الرجال لاحمد بن حنبل: 3919، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 8/151)
امام ابنِ حبان رحمہ اللہ (الثقات: 9/159) اور امام ابنِ شاہین رحمہ اللہ (الثقات: 1356) نے اسے ثقات میں ذکر کیا ہے۔
امام عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی رحمہ اللہ (126۔ 211ھ) سے ان کے بارے میں پوچھا تو:
«فأحسن الثناء عليه .»
آپ نے اس کی تعریف کی۔
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 1/319، وسندہ، صحیحٌ)
رہا امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کا اسے ضعیف کہنا (تہذیب التہذیب لابن حجر: 10/318) تو یہ ثابت نہیں ہو سکا۔ ثابت ہونے کی صورت میں جمہور کی توثیق کے مقابلہ میں ناقابل التفات ہے۔ الحافظ السلیمانی کا ان کو منکر الحدیث کہنا بھی مردود ہے۔
اوّلاً یہ جمہور کے خلاف ہے۔
ثانیاً حافظ سلیمانی، ثقہ راویوں کے بارے میں اس طرح کی سخت کلام کرتے رہتے ہیں۔ خود حافظ سلیمانی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«رأيت للسليمانيّ كتابا، فيه حطّ على كبار، فلا يسمع منه ما شذّ فيه .»
میں نے حافظ سلیمانی کی ایک کتاب دیکھی ہے، جس میں بڑے بڑے علماء پر کلام کی گئی ہے۔ ان کی وہ بات نہیں سنی جائے گی، جس میں انہوں نے عام علماء سے شذوذ اختیار کیا ہے۔
(سیر اعلام النبلاء للذہبی: 17/203)
موسیٰ بن عبدالعزیز کی دوسری روایات کی علمائے کرام نے تصحیحکر رکھی ہے۔ یہ ان کی توثیق ہے۔
3 الحکم بن ابان العدنی: اس راوی کی کبار محدثین نے توثیق کر رکھی ہے، سوائے امام ابنِ عدی رحمہ اللہ کے۔ امام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کا «إرم به» (اس کو پھینک دو) کہنا ثابت نہیں، کیونکہ امام عقیلی رحمہ اللہ کے استاذ عبداللہ بن محمد بن سعدویہ کی توثیق نہیں مل سکی۔ اگر بالفرض یہ ثابت ہوبھی جائے تو جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلہ میں مردود ہے۔
4 عکرمہ مولیٰ ابنِ عباس: عکرمہ، جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں۔
حافظ بیہقی رحمہ اللہ (384۔ 458ھ) لکھتے ہیں:
«وعكرمة عند أكثر الأئمّة من الثقات الأثبات .»
عکرمہ اکثر ائمہ کے نزدیک ثقہ ثبت راویوں میں سے ہیں۔
(السنن الکبرٰی للبیقی: 8/234)
علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ (762۔ 855ھ) لکھتے ہیں:
«والجمهور وثّقوه، واحتجّوا به .»
جمہور نے ان کی توثیق کی ہے اور ان سے حجت لی ہے۔
(عمدۃ القاری للعینی: 1/8)
خلاصۃ الکلام: صلاۃ التسبیح کے بارے میں حدیث ابنِ عباس کی سند بلاشک وشبہ حسن ہے۔ ان شاء اللہ!
تنبیہ بلیغ: صلاۃ التسبیح کے بارے میں سنن ابی داؤد (1299) میں ایک انصاری صحابی سے بھی حدیث آتی ہے، جس کی سند بالکل صحیحہے، لہٰذا نماز ِ تسبیح کے ثبوت میں کوئی شبہ نہیں رہا۔
   ماہنامہ السنہ جہلم، حدیث/صفحہ نمبر: 72   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود، تحت الحديث 1297  
1297۔ اردو حاشیہ:
صلوۃ تسبیح کی احادیث کی اسانید پر کچھ کلام ہے، مگر مجموعی لحاظ سے یہ صحیح ثابت ہے۔ جیسے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے تحقیق کی ہے۔ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کا اس کو موضوعات میں شمار کرنا قطعاً صحیح نہیں ہے۔ مذکورہ بالا پہلی حدیث جزء القراء خلف الامام بخاری کے علاوہ سنن ابن ماجہ، صحیح ابن خزیمہ اور مستدرک حاکم میں مروی ہے۔ امام بیہقی وغیرہ نے اس کو صحیح کہا ہے۔ امام ابوداؤد کے فرزند ابوبکر سے مروی ہے کہ میں نے اپنے والد سے سنا کہ صلاۃ التسبیح میں یہ حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے۔ ابن مندہ، آجری، خطیب، ابوسعد سمعانی، ابوموسیٰٰ مدینی، ابوالحسن بن مفضل، منذری، ‘ ابن الصلاح اور نووی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ امام ابن المبارک اس کے قائل وفاعل تھے۔ [عون المعبود]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1297   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.