سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
Establishing the Prayer and the Sunnah Regarding Them
101. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ
101. باب: فجر سے پہلے کی دو رکعت سنت کا بیان۔
Chapter: What was narrated concerning two Rak’ah before Fajr
حدیث نمبر: 1146
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو الاحوص ، عن ابي إسحاق ، عن الاسود ، عن عائشة ، قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم" إذا توضا صلى ركعتين، ثم خرج إلى الصلاة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا تَوَضَّأَ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تو دو رکعت پڑھتے، پھر نماز کے لیے نکلتے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16037، ومصباح الزجاجة: 408)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/77، 87، 98، 111، 115) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں ابو اسحاق السبیعی مدلس و مختلط راوی ہیں، لیکن اختلاط سے پہلے ان سے ابو الاحوص نے روایت کی ہے، چنانچہ امام بخاری اور امام مسلم نے ابو الاحوص کے واسطہ سے روایت فرمائی ہے)

It was narrated that ‘Aishah said: “When he performed ablution the Prophet (ﷺ) would pray two (short) Rak’ah and then go out for the prayer.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
أبو إسحاق عنعن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 418

   سنن النسائى الصغرى100عائشة بنت عبد اللهتمضمضت واستنثرت ثلاثا وغسلت وجهها ثلاثا ثم غسلت يدها اليمنى ثلاثا واليسرى ثلاثا ووضعت يدها في مقدم رأسها ثم مسحت رأسها مسحة واحدة إلى مؤخره ثم أمرت يديها بأذنيها ثم مرت على الخدين
   سنن ابن ماجه1146عائشة بنت عبد اللهإذا توضأ صلى ركعتين ثم خرج إلى الصلاة

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1146 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1146  
اردو حاشہ:
فائده:
ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
جبکہ شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اور مذید لکھا ہے کہ مذکورہ روایت صحیح مسلم کی روایت کا اختصار ہے۔
اس میں ہے کہ ان دو رکعتوں سے مراد فجر کی سنتیں ہیں نہ کہ وضو کی سنتیں۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (الضعیفة، رقم: 4181)
 علاوہ ازیں امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو فجر سے پہلے دو رکعتوں کا بیان نامی عنوان کے تحت ذکر کیا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1146   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 100  
´عورت اپنے سر کا مسح کیسے کرے۔`
ابوعبداللہ سالم سبلان کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی امانت پر تعجب کرتی تھیں، اور ان سے اجرت پر کام لیتی تھیں، چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا نے مجھے دکھایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے وضو کرتے تھے؟ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا نے تین بار کلی کی، اور ناک جھاڑی اور تین بار اپنا چہرہ دھویا، پھر تین بار اپنا دایاں ہاتھ دھویا، اور تین بار بایاں، پھر اپنا ہاتھ اپنے سر کے اگلے حصہ پر رکھا، اور اپنے سر کا اس کے پچھلے حصہ تک ایک بار مسح کیا، پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کانوں پر پھیرا، پھر دونوں رخساروں پر پھیرا، سالم کہتے ہیں: میں بطور مکاتب (غلام) کے ان کے پاس آتا تھا اور آپ مجھ سے پردہ نہیں کرتی تھیں، میرے سامنے بیٹھتیں اور مجھ سے گفتگو کرتی تھیں، یہاں تک کہ ایک دن میں ان کے پاس آیا، اور ان سے کہا: ام المؤمنین! میرے لیے برکت کی دعا کر دیجئیے، وہ بولیں: کیا بات ہے؟ میں نے کہا: اللہ نے مجھے آزادی دے دی ہے، انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ تمہیں برکت سے نوازے، اور پھر آپ نے میرے سامنے پردہ لٹکا دیا، اس دن کے بعد سے میں نے انہیں نہیں دیکھا۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 100]
100۔ اردو حاشیہ:
➊ راوی کا نام سالم، سبلان ان کا لقب اور ابوعبداللہ ان کی کنیت ہے۔ یہ غلام تھے، بعد میں آزاد ہوئے۔
(مکاتب) اس غلام کو کہا جاتا ہے جو اپنا معاوضہ ادا کرنے کا معاہدہ اپنے مالک سے کر لے۔ ایسا غلام جب تک معاوضہ ادا نہ کر دے، وہ اس مالک کا غلام ہی رہتا ہے۔ چونکہ غلاموں سے پردہ ضروری نہیں، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سالم سے بے حجاب بات کرنا قابل اعتراض نہیں (اسی طرح لونڈیوں پر بھی پردہ واجب نہیں) جونہی سالم آزاد ہوا، آپ نے ان سے فوراًً پردہ کر لیا۔
➌ مذکورہ روایت قابل حجت ہے اگرچہ عمومی روایات میں مسح کا یہ طریقہ منقول نہیں، لیکن چونکہ یہ طریقہ بھی مستند ذریعے سے ثابت ہے، اس لیے انسان کبھی کبھار اس سنت مسح کو بھی اختیار کر سکتا ہے۔
➌ امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے یوں لگتا ہے کہ وہ اس اندازِ مسح کو صرف عورت کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں لیکن سائل کے سوال اور اس کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا وضو کر کے دکھانا اور پھر اس مسح کے طریقے کی نسبت نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ طریقہ مرد و عورت سب کے لیے یکساں قابل عمل ہے۔ عورت کی تخصیص مرجوح ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 100   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.