عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آسمان پر بادل چھا گئے اور قبلہ کی سمت ہم پر مشتبہ ہو گئی، آخر ہم نے (اپنے ظن غالب کی بنیاد پر) نماز پڑھ لی، اور اس سمت ایک نشان رکھ دیا، جب سورج نکلا تو معلوم ہوا کہ ہم نے قبلہ کی سمت نماز نہیں پڑھی ہے، ہم نے اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو اللہ تعالیٰ نے «فأينما تولوا فثم وجه الله»”جدھر تم رخ کر لو ادھر ہی اللہ کا چہرہ ہے“(سورۃ البقرہ: ۱۱۵) نازل فرمائی۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 141 (345)، (تحفة الأشراف: 5035) (حسن)» (اس کی سند میں اشعث بن سعید متروک ہے، لیکن شواہد کی وجہ ہے یہ حسن ہے)
It was narrated from ‘Abdullah bin ‘Amir bin Rabi’ah that his father said:
“We were with the Messenger of Allah (ﷺ) on a journey, and the sky was overcast so it was difficult for us to determine the Qiblah. So we performed prayer, and we marked the location.* Later, when the sun reappeared, we realized that we had prayed facing a direction other than the Qiblah. We mentioned that to the Prophet (ﷺ), then the Words were revealed: ‘So wherever you turn there is the Face of Allah.’” [2:115]
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (345،2957) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 414
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1020
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اگر بادل وغیرہ کی وجہ سے قبلے کا رخ معلوم نہ ہوسکے تو اندازے سے رخ متعین کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس اندازے میں اگر غلطی ہوجائے تو معاف ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾(البقرۃ: 286) ”اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کام کرنے کا مکلف نہیں فرماتا“(2) اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ غلطی سے قبلے کے سوا د وسری طرف پڑھی ہوئی نماز دہرانے کی ضرورت نہیں۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔ اکثر علماء نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔ اگر کوئی شخص بادل کی وجہ سے قبلے کے سوا دوسری طرف منہ کرکے نماز پڑھ لے پھر نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ اس نے قبلہ رخ نماز ادا نہیں کی تو اس کی وہ نماز درست ہے۔ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ، ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ، احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے۔ (جامع ترمذي، الصلاۃ، باب ماجاء فی الرجل یصلی لغیر القبلة فی الغیم، حدیث: 345)
(3) اگر نماز کے دوران میں پتہ چل جائے تو نمازی کوچاہیے کہ نماز کے دوران میں ہی قبلہ رخ ہوجائے۔ اور باقی نماز صحیح رخ پر مکمل کرلے۔ جیسے کہ اہل قباء نے تحویل قبلہ کی خبر سن کرنماز کے دوران میں ہی رخ تبدیل کرلیا تھا۔
(4) یہ روایت بعض حضرات کے نزدیک حسن ہے دیکھئے: (الارواء، رقم: 291)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1020
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 164
´عدم واقفیت، ابر آلودگی یا دیگر کسی سبب کے باعث سمت قبلہ صحیح طور پر معلوم نہ ہونے پر نماز` «. . . وعن عامر بن ربيعة رضي الله عنه قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وآله وسلم في ليلة مظلمة فاشكلت علينا القبلة فصلينا . . .» ”. . . سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک تاریک و اندھیری رات میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، قبلہ کا رخ شناخت کرنا ہم پر دشوار و مشکل ہو گیا۔ ہم نے (اندازاً قبلہ کا رخ متعین کر کے) نماز پڑھ لی . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 164]
� لغوی تشریح: «مُظْلِمَةٍ»”میم“ پر ضمہ اور ”لام“ مکسور ہے۔ تاریک رات۔ «فَأَشْكَلْتُ» مشتبہ ہو گئی۔ «تُوَلُّوْا» رخ کرو گے۔ «فَثَمَّ»”ثا“ پر فتحہ اور ”میم“ پر تشدید اور فتحہ ہے۔ اس کے معنی ہیں: وہاں۔
فوائد و مسائل: ➊ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [إرواء الغليل، رقم: 291] بنابریں اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عدم واقفیت، ابر آلودگی یا دیگر کسی سبب کے باعث سمت قبلہ صحیح طور پر معلوم نہ ہو سکے اور آدمی اپنی دانست کے مطابق غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد فیصلہ کر کے نماز پڑھ لے تو اس اندازے میں اگر غلطی ہو جائے تو معاف ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا»[البقرة 2: 286]”اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کام کرنے کا مکلّف نہیں ٹھہراتا۔“ ➋ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک وقت نکلنے سے پہلے اور بعد میں ہر صورت میں اعادہ واجب ہے کیونکہ قبلہ رخ ہونا فرض ہے، نیز وہ اس حدیث کو ضعیف کہتے ہیں۔ ➌ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اس بنا پر ضعیف کہا ہے کہ اس روایت کی سند میں اشعث بن سعید راوی ضعیف قرار دیا گیا ہے، مگر امام ترمذی رحمہ اللہ اس مسئلے کی بابت كتاب الصلاة، باب ماجاء فى الرجل يصلي۔۔۔، حديث: 345 ميں لکھتے ہیں: ”اکثر علماء نے یہی موقف اختیار کیا ہے کہ اگر کوئی شخص بادل کی وجہ سے قبلے کے سوا دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے، پھر نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ اس نے قبلہ رخ نماز ادا نہیں کی تو اس کی وہ نماز درست ہے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے۔“ ➍ اگر نماز کے دوران میں پتہ چل جائے تو نمازی کو چاہیے کہ دوران نماز ہی میں قبلہ رخ ہو جائے جیسا کہ اہل قبا نے تحویل قبلہ کی خبر سن کر نماز ہی میں اپنا رخ تبدیل کر لیا تھا، اور باقی نماز صحیح سمت ہو کر مکمل کر لے۔
راویٔ حدیث: (سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ) قبیلہ عنز بن وائل میں سے ہیں۔ بکر اور تغلب جو وائل کے بیٹے تھے، عنز ان کا بھائی تھا۔ قدیم الاسلام صحابی ہیں۔ ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ دونوں سے شرف یاب ہوئے۔ غزوہ بدر اور دیگر تمام معرکوں میں داد شجاعت دیتے رہے۔ ان کے سن وفات میں اختلاف ہے۔ 32، 33 یا 35 ہجری میں سے کسی سن میں وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 164
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 345
´جو شخص بدلی میں غیر قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے اس کا کیا حکم ہے؟` عامر بن ربیعہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک تاریک رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے۔ تو ہم نہیں جان سکے کہ قبلہ کس طرف ہے، ہم میں سے ہر شخص نے اسی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لی جس طرف پہلے سے اس کا رخ تھا۔ جب ہم نے صبح کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا چنانچہ اس وقت آیت کریمہ «فأينما تولوا فثم وجه الله»”تم جس طرف رخ کر لو اللہ کا منہ اسی طرف ہے“ نازل ہوئی۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 345]
اردو حاشہ: نوٹ: (سند میں اشعث بن سعید السمان متکلم فیہ راوی ہیں، حتی کہ بعض علماء نے بڑی شدید جرح کی ہے، اور انہیں غیر ثقہ اور منکر الحدیث بلکہ متروک الحدیث قرار دیا ہے، لیکن امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ نہ تو متروک ہے اور نہ محدثین کے یہاں حافظ حدیث ہے، ابو احمد الحاکم کہتے ہیں: ”لَيْسَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَهُمْ“(یعنی محدثین کے یہاں اشعث زیادہ قوی راوی نہیں ہے) ابن عدی کہتے ہیں: اس کی احادیث میں سے بعض غیر محفوظ ہیں، اور ضعف کے باوجود ان کی حدیثیں لکھی جائیں گی (تہذیب الکمال 523) خلاصہ یہ کہ ان کی احادیث کو شواہد و متابعات کے باب میں جانچا اور پرکھا جائے گا اسی کو اعتبار کہتے ہیں، اور ترمذی نے سند پر کلام کر کے اشعث کے بارے لکھا ہے کہ حدیث میں ان کی تضعیف کی گئی ہے، اور اکثر علماء کا فتویٰ بھی اسی حدیث کے مطابق ہے، اس شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 345
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2957
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔` عامر بن ربیعہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک انتہائی اندھیری رات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، کوئی نہ جان سکا کہ قبلہ کدھر ہے۔ چنانچہ جو جس رخ پر تھا اس نے اسی رخ پر نماز پڑھ لی، جب صبح ہوئی تو ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو (اس وقت) یہ آیت «فأينما تولوا فثم وجه الله»”تم جدھر بھی منہ کروا ادھر اللہ کا منہ ہے“(البقرہ: ۱۱۵) نازل ہوئی۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2957]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: تم جدھر بھی منہ کروا ادھر اللہ کا منہ ہے (البقرۃ: 115) لیکن بہرحال یہ اضطراری حالت کے لیے ہے، عام حالات اور معلوم ہو جانے کی صورت میں خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنا نماز کی شرط ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2957