والدليل على ان هذا الاختلاف في الافتتاح من جهة اختلاف المباح، جائز للمصلي ان يفتتح بكل ما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم انه افتتح الصلاة به بعد التكبير من حمد وثناء على الله- عز وجل- ودعاء مما هو في القرآن ومما ليس في القرآن من الدعاء.وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ هَذَا الِاخْتِلَافَ فِي الِافْتِتَاحِ مِنْ جِهَةِ اخْتِلَافِ الْمُبَاحِ، جَائِزٌ لِلْمُصَلِّي أَنْ يَفْتَتِحَ بِكُلِّ مَا ثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ بِهِ بَعْدَ التَّكْبِيرِ مِنْ حَمْدٍ وَثَنَاءٍ عَلَى اللَّهِ- عَزَّ وَجَلَّ- وَدُعَاءٍ مِمَّا هُوَ فِي الْقُرْآنِ وَمِمَّا لَيْسَ فِي الْقُرْآنِ مِنَ الدُّعَاءِ.
اس کی دلیل یہ ہے کہ (دعا) افتتاح میں اختلاف مباح کے اختلاف میں سے ہے اور نمازی کے لیے جائز ہے کہ وہ (ہر اس دعا کے ساتھ) نماز کا آغاز کرے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ وہ تکبیر کے بعد (اس دعا سے) نماز کا آغاز کرتے تھے (خواہ) وہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا سے ہو اور وہ دعائیں ہوں جو قرآن میں مذکور ہیں یا وہ دعائیں جو قرآن میں مذکور نہیں ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز (کی ابتداء) میں «اللهُ أَكْبَرُ» کہتے توتھوڑی دیر خاموش رہتے، تومیں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ فرمائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اور قرات کے درمیان اپنی خاموشی میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہ دعا پڑھتا ہوں «اللّٰهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللّٰهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللّٰهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالثَّلْجِ وَالْمَاءِ وَالْبَرَدِ» ”اے اللہ، میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اسی طرح دوری ڈال دے جیسے تُو نے مشرق و مغرب کے درمیان دوری ڈالی ہے۔ اے اللہ مجھے میری خطاؤں سے اس طرح پاک صاف کر دے جیسے سفید کپڑا میل کچیل سے پاک صاف کیا جاتا ہے، اے اللہ میرے گناہوں کو برف، پانی اور اولوں سے دھو دے۔“