وهذا القول خلاف سنن النبي صلى الله عليه وسلم الثابتة، قد دعا النبي صلى الله عليه وسلم في اول صلاته ووسطها وآخرها بما ليس في القرآن.وَهَذَا الْقَوْلُ خِلَافُ سُنَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الثَّابِتَةِ، قَدْ دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَوَّلِ صَلَاتِهِ وَوَسَطِهَا وَآخِرِهَا بِمَا لَيْسَ فِي الْقُرْآنِ.
اور یہ قول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت سنتوں کے مخالف ہے- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے شروع، اس کے درمیان اور نماز کے آخر میں قرآنی دعاؤں کے علاوہ دعائیں مانگی ہیں۔
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو «اللهُ أَكْبَرُ» کہتے اور «اللهُ أَكْبَرُ» کہنے کے بعد جب نماز شروع کرتے تو یہ دعا پڑھتے «وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي، وَنُسُكِي، وَمَحْيَايَ، وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اللّٰهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَنْتَ رَبِّي، وَأَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي، وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي، فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ، وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ، أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ» ”میں نے اپنا چہرہ اس ذات کی طرف متوجہ کر دیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو یکسُو ہو کر پیدا فرمایا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا ﷲ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی بات کا حُکم دیا گیا ہے اور میں پہلا مسلمان ہوں۔ اے ﷲ، تُو ہی بادشاہ ہے، تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے۔ تُو ہی میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں۔ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور میں اپنے گناہوں کا اقرار و اعتراف کرتا ہوں لہٰذا تُو میرے تمام گناہ معاف فرما دے، بیشک تیرے سوا کوئی ذات گناہوں کو نہیں بخشتی اور مجھے عمدہ و بہترین اخلاق اپنانے کی توفیق عطا فرما، عمدہ اخلاق کی توفیق تُو ہی دیتا ہے، اور مجھے بُرے اخلاق سے پھیر دے، صرف تُو ہی بُرے اخلاق سے پھیر سکتا ہے، میں (احکام بجا لانے کے لئے) حاضر ہوں اور فرماں برداری کے لئے کمر بستہ ہوں، ساری خیر و بھلائی تیرے ہاتھوں میں ہے، اور بُرائی کی نسبت تیری طرف نہیں ہے، میں تیری توفیق سے قائم ہوں اور تیرے ہی طرف لوٹنا ہے، تُو بہت بابرکت ہے اور تیری ذات بڑی بلند ہے، میں تجھ سے معافی کا طلب گار ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں (توبہ کرتا ہوں)۔“ پھر مکمل حدیث بیان کی اور فرمایا ” اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔“ امام صاحب کے اساتذہ کرام جناب ربیع بن سلیمان اور بحر بن نصر) دونوں نے یہ الفاظ ذکر نہیں کیے ” اور مجھے بہترین اخلاق کی راہ دکھا، بہترین اخلاق کی راہنمائی تیرے سوا کوئی نہیں کرتا۔“ اور نہ یہ الفاظ روایت کئے ہیں ”اور مجھے برے اخلاق سے پھیر دے، بر ے اخلاق کو تیرے سوا کوئی ذات نہیں پھیر سکتی۔“