سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حنین سے واپس تشریف لائے تو میں دس میں سے دسواں شخص تھا جو مسلمانوں کی تلاش میں مکّہ مکرمہ سے نکلا۔ میں نے اُنہیں نماز کے لئے اذان دیتے ہوئے سنا، تو ہم نے اُن کے ساتھ مذاق کرتے ہوئے کھڑے ہوکر اذان دینا شروع کر دی (ہماری آواز سن کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے ان لوگوں میں ایک خوش آواز شخص کی اذان سنی ہے“ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف (کسی شخص کو بلانے کے لئے) بھیجا۔ (جب ہم حاضر خدمت ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اذان کہنے کا حُکم دیا) چنانچہ ہم نے ایک ایک کر کے اذان دی۔ میں سب سے آخر میں تھا۔ جب میں نے اذان دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس آؤ۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا اور میری پیشانی پر (اپنا دست مبارک) پھیرا اور مجھے تین بار برکت کی دعا دی۔ پھر فرمایا: ”جاوٗ بیت الحرام کے پاس اذان کہو۔“ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول، کیسے (اذان دوں)؟ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اذان سکھائی جیسے آج کل مسلمان اذان دے رہے ہیں۔ «اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ» ”اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے“ «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں“ «أَشْهَدُ أَنْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱللَّٰه، أَشْهَدُ أَنْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱللَّٰه» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں“ «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» ”نماز کی طرف آؤ، نماز کے لئے آؤ“ «حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» ”کامیابی کی طرف آؤ، کامیابی کی طرف آؤ“ صبح کی پہلی اذان میں یہ کلمات کہلوائے « اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْم، اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْم» ”نماز نیند سے بہتر ہے، نماز نیند سے بہتر ہے“ «اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ» ”اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے“ «لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» (اللہ کے سوا کوئِی معبود برحق نہیں) کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اقامت کے کلمات دو دومرتبہ سکھائے۔ «اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱللَّٰه، أَشْهَدُ أَنْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱللَّٰه، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ،» ”نماز کھڑی ہو گئی، نماز کھڑی ہو گئی۔“ «اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» ابن جریح کہتے ہیں کہ مجھے یہ ساری عثمان نے اپنے باپ سے اور ام عبدالمالک بن ابی محذورہ سے بیان کی، اُنہوں نے یہ روایت سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے سنی۔ ابن رافع اور یزید بن سنان نے حدیث میں اذان کی ابتداﺀ میں «اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ» (یعنی چار مرتبہ) کہا ہے۔ یزید بن سنان نے اقامت کے کلمات دورقی کی روایت کی طرح دو دو مرتبہ ذکر کیے ہیں۔ ابن رافع نے اپنی حدیث میں کہا کہ جب تم اقامت کہو تو دو مرتبہ کہو «قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ» ”نماز کھڑی ہوگئی، قائم ہوگئی“ کیا تم نے سن لیا ہے؟ اور یہ اضافہ بھی بیان کیا کہ سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ اپنی پیشانی (کے بالوں) کو نہ کاٹتے تھے اور نہ ان میں مانگ نکالتے تھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا دست مبارک پھیرا تھا۔ یزید بن سنان نے اپنی روایت کے آخر میں یہ اضافہ کیا ہے کہ ابن جریج نے کہا کہ مجھے یہ ساری حدیث عثمان نے اپنے باپ سے اور ام عبدالمالک بن ابی محذورہ سے بیان کی ہے، اُنہوں نے یہ روایت سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے سنی ہے۔