ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
والدليل [على] ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما اراد بقوله: واخرجوا الحجر من البيت، بعضه لا جميعه، وهذا من الجنس الذي اعلمت في غير موضع من كتبنا ان الاسم باسم المعرفة بالالف واللام قد يقع على بعض الشيء.وَالدَّلِيلُ [عَلَى] أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَرَادَ بِقَوْلِهِ: وَأَخْرَجُوا الْحِجْرَ مِنَ الْبَيْتِ، بَعْضَهُ لَا جَمِيعَهُ، وَهَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا أَنَّ الِاسْمَ بِاسْمِ الْمَعْرِفَةِ بِالْأَلِفِ وَاللَّامِ قَدْ يَقَعُ عَلَى بَعْضِ الشَّيْءِ.
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ مجھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، وہ فرماتی ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”اے عائشہ، اگر تمھاری قوم نئی نئی جاہلیت سے نکل کر مسلمان نہ ہوئی ہوتی تو میں بیت الشریف کو گرا کر حطیم کا وہ حصّہ اس میں شامل کردیتا جو انھوں نے باہر نکال دیا تھا کیونکہ اُن کا خرچ کم پڑ گیا تھا اس لئے وہ اسے تعمیر نہ کر سکے تھے۔ میں بیت اللہ شریف کے دو دروازے بناتا۔ ایک مشرق کی جانب اور ایک مغرب کی جانب اور اسے زمین کے برابر تعمیر کرتا۔ اور میں اسے حضرت ابراہیم عليه السلام کی بنیادوں پر بناتا، راوی کہتا ہے کہ آپ کے اس فرمان کی وجہ سے سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے (اپنے عہد حکومت میں) بیت الله شریف کو گرا کر اسے ابراہیم عليه السلام کی بنیادوں پر تعمیر کردیا۔ جناب یزید بن رومان کہتے ہیں کہ جب سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیت اللہ شریف کو گرا کر تعمیر کیا تو میں ان کے ساتھ موجود تھا اُنھوں نے بیت اللہ شریف کی بنیادیں نکالیں تو وہ بختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح تھیں۔ جناب جریر کہتے ہیں کہ میں نے یزید بن رومان سے کہا جبکہ میں اس وقت ان کے ساتھ طواف کر رہا تھا، مجھے حطیم کا وہ حصّہ دکھاؤ جو قریش نے بیت اللہ کی تعمیر سے نکال دیا تھا؟ اُنھوں نے کہا کہ میں ابھی تمہیں وہ حصّہ دکھاتا ہوں۔ جب وہ اس حصّے کے قریب پہنچے تو فرمایا کہ یہ ہے وہ جگہ۔ جناب جریر کہتے ہیں کہ میں نے اسے ناپا تو وہ تقریبا چھ ہاتھ جگہ تھی۔