ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
1947. اس بات کی دلیل کا بیان کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کو بتا دیا ہے کہ صفا مروہ کے درمیان سعی کرنے میں ان پر کوئی گناہ نہیں ہے
لانهم تحرجوا من الطواف بينهما، إذ كان الطواف بينهما في الجاهلية يتماشاه بعض اهل الشرك والاوثان من العرب من كان يهل منهم لبعض اوثانهم، وكانوا يتحرجون من الطواف بينهما فاعلم الله- جل وعلا- نبيه صلى الله عليه وسلم وامته ان لا جناح عليهم في الطواف بينهما كما توهم بعضهم لِأَنَّهُمْ تَحَرَّجُوا مِنَ الطَّوَافِ بَيْنَهُمَا، إِذْ كَانَ الطَّوَافُ بَيْنَهُمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَتَمَاشَاهُ بَعْضُ أَهْلِ الشِّرْكِ وَالْأَوْثَانِ مِنَ الْعَرَبِ مَنْ كَانَ يُهِلُّ مِنْهُمْ لِبَعْضِ أَوْثَانِهِمْ، وَكَانُوا يَتَحَرَّجُونَ مِنَ الطَّوَافِ بَيْنَهُمَا فَأَعْلَمَ اللَّهُ- جَلَّ وَعَلَا- نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمَّتَهُ أَنْ لَا جُنَاحَ عَلَيْهِمْ فِي الطَّوَافِ بَيْنَهُمَا كَمَا تَوَهَّمَ بَعْضُهُمْ
حدثنا عبد الجبار بن العلاء ، حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، قال: قرات عند عائشة إن الصفا والمروة من شعائر الله سورة البقرة آية 158، قلت: ما ارى على من لم يطف بينهما شيئا، قالت: بئس ما قلت يا ابن اختي، إنما كان من اهل لمناة الطاغية التي بالمشلل يطوفون من بين الصفا والمروة، فلما كان الإسلام، قالوا: يا رسول الله، إن طوافنا بين هذين الحجرين من امر الجاهلية، قالت: فنزلت: إن الصفا والمروة من شعائر الله سورة البقرة آية 158، قالت: فطاف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكانت سنة ، وقال غيرها، قال الله:" فمن تطوع خيرا، فتطوع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فطاف"، قال الزهري: فحدثت به ابا بكر بن عبد الرحمن، فقال: إن هذا لعلم، ولقد سمعت رجالا من اهل العلم يقولون: سال الناس الذين كانوا يطوفون بين الصفا والمروة النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله، إنا امرنا ان نطوف بالبيت، ولم نؤمر ان نطوف بين الصفا والمروة، فانزل الله عز وجل: إن الصفا والمروة من شعائر الله سورة البقرة آية 158، فاراها نزلت في هؤلاء وفي هؤلاء، ثناه المخزومي ، حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، بنحوه دون قصة ابي بكر بن عبد الرحمنحَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، قَالَ: قَرَأْتُ عِنْدَ عَائِشَةَ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، قُلْتُ: مَا أَرَى عَلَى مَنْ لَمْ يَطُفْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، قَالَتْ: بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أُخْتِي، إِنَّمَا كَانَ مَنْ أَهَلَّ لِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي بِالْمُشَلَّلِ يَطُوفُونَ مِنْ بَيْنِ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَلَمَّا كَانَ الإِسْلامُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ طَوَافَنَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْحَجَرَيْنِ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، قَالَتْ: فَنَزَلَتْ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، قَالَتْ: فَطَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَتْ سُنَّةً ، وَقَالَ غَيْرُهَا، قَالَ اللَّهُ:" فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا، فَتَطَوَّعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَافَ"، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَحَدَّثْتُ بِهِ أَبَا بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا لَعِلْمٌ، وَلَقَدْ سَمِعْتُ رِجَالا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَقُولُونَ: سَأَلَ النَّاسُ الَّذِينَ كَانُوا يَطُوفُونَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا أُمِرْنَا أَنْ نَطُوفَ بِالْبَيْتِ، وَلَمْ نُؤْمَرْ أَنْ نَطُوفَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، فَأَرَاهَا نَزَلَتْ فِي هَؤُلاءِ وَفِي هَؤُلاءِ، ثَنَاهُ الْمَخْزُومِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، بِنَحْوِهِ دُونَ قِصَّةِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ
حضرت عروہ رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ آیت پڑھی «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ» [ سورة البقرة: 108]”بیشک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔“ میں نے کہا کہ جو شخص ان دونوں کے درمیان سعی نہ کرے، میرے خیال میں اسے کوئی گناہ نہیں ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میرے بھائی، تم نے بہت غلط بات کی ہے۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ (جاہلیت میں) جو لوگ مشلل جگہ پر واقع مناة بت کے نام پر احرام باندھتے تھے وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے تھے۔ پھر جب اسلام کا دور آیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، ان دو پتھروں کے درمیان سعی کرنا تو جاہلیت کے کاموں میں سے ہے۔ تو یہ آیت نازل ہوئی ہے «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ» [ سورة البقرة: 108]”بیشک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا اور مروہ کی سعی کی، اس طرح یہ عمل سنّت بن گیا۔ ایک اور صحابی کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا» [ سورة البقرة: 184 ]”تو جو شخص خوشی سے نیکی کرے۔“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی سے یہ نیک عمل کیا اور سعی کی۔ امام زہری فرماتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابو بکر بن عبد الرحمان کو بیان کی تو وہ فرمانے لگے کہ علم تو بس یہی ہے۔ میں نے کئی اہل علم کو سنا وہ فرماتے تھے کہ جو لوگ صفا اور مروہ کی سعی کرتے تھے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، ہمیں بیت الله شریف کا طواف کرنے کا حُکم دیا گیا ہے اور صفا اور مروہ کی سعی کرنے کا حُکم نہیں دیا گیا۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ» [ سورة البقرة: 108]”بیشک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔“ اس لئے میرے خیال میں یہ آیت دونوں گروہوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔