1948. (207) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ عَائِشَةَ لَمْ تُرِدْ بِقَوْلِهَا: " هِيَ سُنَّةٌ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَّ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا سُنَّةٌ يَتِمُّ الْحَجُّ بِتَرْكِهِ
1948. اس بات کی دلیل کا بیان کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس فرمان ”صفا مروہ کی سعی سنت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری کیا ہے“ سے ان کی مراد یہ نہیں ہے کہ ان دونوں کےدرمیان سعی کرنا ایسی سنّت ہے جس کے بغیر بھی حج مکمّل ہوجاتا ہے
حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ میری رائے یہ ہے کہ اگر میں صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کروں تو مجھ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ اُنہوں نے پوچھا، وہ کیسے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا» [ سورة البقرة: 158 ] ”پس جو بیت اللہ شریف کا حج یا عمرہ کرے تو اُس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کا طواف (سعی) کرے۔“ اُنہوں نے فرمایا کہ اگر بات ویسے ہی ہوتی ہے جیسے تُو کہہ رہا ہے تو پھر آیت اس طرح ہونی چاہیے تھی ”فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا“ (تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کا طواف نہ کرے۔) بلا شبہ یہ آیت تو انصار کے کچھ لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ وہ جاہلیت میں مناة بت کے نام پر احرام باندھتے تھے تو وہ اپنے لئے صفا مروہ کی سعی حلال نہیں سمجھتے تھے۔ پھر جب وہ (مسلمان ہونے کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لئے مکّہ مکرّمہ آئے تو اُنہوں نے یہ بات آپ کو بتائی، اس پر الله تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی۔ میری عمر کی قسم، جو شخص صفا اور مروہ کی سعی نہیں کریگا اللہ تعالیٰ اُس کا حج مکمّل نہیں کریگا۔ کیونکہ الله تعالیٰ فرماتا ہے «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ» [ سورة البقرة: 158 ] ”بیشک صفا اور مروہ الله تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔“ امام ابو بکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمان کہ ان کے لئے سعی کرنا حلال نہ تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کے جاہلی عقیدے کے مطابق ان کے لئے صفا مروہ کی سعی کرنا حلال نہ تھا۔