والدليل على ان الصدقة إذا رجعت إلى المتصدق بها إرثا عن المتصدق عليه جاز له. والفرق بين ما يملكه الرجل من الصدقة إرثا وبين ما يملكه بابتياع او استيهاب، إذ الإرث يملكه الوارث احب ذلك ام كره، ولا يملك المرء ملكا بغير نية، واخبر انه ملك بمعنى من المعاني سوى الميراث.وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الصَّدَقَةَ إِذَا رَجَعَتْ إِلَى الْمُتَصَدِّقِ بِهَا إِرْثًا عَنِ الْمُتَصَدَّقِ عَلَيْهِ جَازَ لَهُ. وَالْفَرْقُ بَيْنَ مَا يَمْلِكُهُ الرَّجُلُ مِنَ الصَّدَقَةِ إِرْثًا وَبَيْنَ مَا يَمْلِكُهُ بِابْتِيَاعٍ أَوِ اسْتِيهَابٍ، إِذِ الْإِرْثُ يَمْلِكُهُ الْوَارِثُ أَحَبَّ ذَلِكَ أَمْ كَرِهَ، وَلَا يَمْلِكُ الْمَرْءُ مِلْكًا بِغَيْرِ نِيَّةٍ، وَأَخْبَرَ أَنَّهُ مِلْكٌ بِمَعْنَى مِنَ الْمَعَانِي سِوَى الْمِيرَاثِ.
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنے بیٹے کو ایک باغ صدقہ میں دیا۔ (وہ لڑکا فوت ہوا) تو وہ باغ میراث میں واپس اسی شخص کے پاس آگیا۔ تو اُس نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے کہا: ”تیرا ثواب ثابت ہوگیا اور تمھاری ملکیت بھی تمھاری طرف لوٹ آئی۔“