وفي خبر سعيد بن يسار , عن جابر: فغشي عليه , فجعل ينضح الماء، اي: عليه. قال النبي صلى الله عليه وسلم، إنما قال:" ليس البر الصوم في السفر" اي: ليس البر الصوم في السفر حتى يغشى على الصائم , ويحتاج إلى ان يظلل وينضح عليه , إذ الله عز وجل رخص للمسافر في الفطر , وجعل له ان يصوم في ايام اخر , واعلم في محكم تنزيله انه اراد بهم اليسر لا العسر في ذلك , فمن لم يقبل يسر الله، جاز ان يقال له: ليس اخذك بالعسر، فيشتد العسر عليك من البر. وقد يجوز ان يكون في هذا الخبر: ليس البر ان تصوموا في السفر، اي: ليس كل البر هذا , قد يكون البر ايضا ان تصوموا في السفر , وقبول رخصة الله والإفطار في السفر. وسادلل بعد إن شاء الله عز وجل على صحة هذا التاويل. حدثنا بخبر سعيد بن يسار ، بندار , قال: حدثنا حماد بن مسعدة , عن ابن ابي ذئب وَفِي خَبَرِ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ جَابِرٍ: فَغُشِيَ عَلَيْهِ , فَجَعَلَ يَنْضَحُ الْمَاءَ، أَيْ: عَلَيْهِ. قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّمَا قَالَ:" لَيْسَ الْبِرُّ الصَّوْمَ فِي السَّفَرِ" أَيْ: لَيْسَ الْبِرُّ الصَّوْمَ فِي السَّفَرِ حَتَّى يُغْشَى عَلَى الصَّائِمِ , وَيُحْتَاجُ إِلَى أَنْ يُظَلَّلَ وَيُنْضَحَ عَلَيْهِ , إِذِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ رَخَّصَ لِلْمُسَافِرِ فِي الْفِطْرِ , وَجَعَلَ لَهُ أَنْ يَصُومَ فِي أَيَّامٍ أُخَرَ , وَأَعْلَمَ فِي مُحْكَمِ تَنْزِيلِهِ أَنَّهُ أَرَادَ بِهِمُ الْيُسْرَ لا الْعُسْرَ فِي ذَلِكَ , فَمَنْ لَمْ يَقْبَلْ يُسْرَ اللَّهِ، جَازَ أَنْ يُقَالَ لَهُ: لَيْسَ أَخْذُكَ بِالْعُسْرِ، فَيَشْتَدُّ الْعُسْرُ عَلَيْكَ مِنَ الْبِرِّ. وَقَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ فِي هَذَا الْخَبَرِ: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تَصُومُوا فِي السَّفَرِ، أَيْ: لَيْسَ كُلُّ الْبِرِّ هَذَا , قَدْ يَكُونُ الْبِرُّ أَيْضًا أَنْ تَصُومُوا فِي السَّفَرِ , وَقَبُولُ رُخْصَةِ اللَّهِ وَالإِفْطَارِ فِي السَّفَرِ. وَسَأُدَلِّلُ بَعْدُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى صِحَّةِ هَذَا التَّأْوِيلِ. حَدَّثَنَا بِخَبَرِ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ ، بُنْدَارٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ , عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ شخص بیہوش ہوگیا تو اس پر پانی چھڑکا جانے لگا۔ (امام صاحب فرماتے ہیں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ”سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے“ اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ سفر میں(ایسی مشقت کے ساتھ) روزہ رکھنا کہ جس سے روزے دار بیہوش ہو جائے اور اس پر سایہ کرنا پڑے اور اس پر پانی چھڑکنا پڑے، یہ نیکی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعا لیٰ نے مسافر کو رخصت دی ہے کہ وہ سفر میں روزہ چھوڑے اور رمضان کے بعد رکھ لے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ”قرآن مجید“ میں یہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آسانی دینا چاہتا ہے، اُن پر تنگی اور مشقّت نہیں ڈالنا چاہتا۔ لہٰذا جو شخص اللہ تعالیٰ کی آسانی کو قبول نہیں کرتا، اُس کے لئے یہ کہنا درست ہے کہ تمہارا تنگی کو اختیار کرنا، اس حال میں کہ تنگی تمہارے لئے شدید مشکل بن جائے، یہ کوئی نیکی نہیں ہے۔ اسی طرح اس روایت کا یہ معنی کرنا بھی درست ہوگا کہ سفر میں تمہارا روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے یعنی یہ کوئی مکمّل نیکی نہیں ہے بلکہ کبھی سفر میں تمہارا روزہ رکھنا نیکی ہوگا اور کبھی اللہ کی رخصت کو قبول کرنا۔ اور سفر میں روزہ نہ رکھنا نیکی ہوگا۔ میں عنقریب اس تاویل کی دلیل بیان کروں گا۔ ان شاء اللہ