1089. (138) بَابُ الْمُدْرِكِ وِتْرًا مِنْ صَلَاةِ الْإِمَامِ، وَجُلُوسِهِ فِي الْوِتْرِ مِنْ صَلَاتِهِ اقْتِدَاءً بِالْإِمَامِ.
1089. جس شخص کو امام کی نماز سے وتر (ایک یا تین) رکعت ملے تو وہ اپنے امام کی اقتداء میں وتر رکعت میں (تشہد کے لئے) بیٹھے گا
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں فجر سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راستے سے ہٹ گئے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی تھا لہٰذا میں بھی راستے سے ہٹ گیا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا اور قضائے حاجت کی۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے) تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پر برتن سے پانی انڈیلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ دھوئے، پھر اپنا چہرہ مبارک دھویا پھر اپنے بازوؤں سے کپڑا ہٹانا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبّے کی آستینیں تنگ ہو گئیں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جبّے کے اندر داخل کرکے جبّے کے نیچے سے نکال لئے اور اُنہیں کہنیوں تک دھو لیا - پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر آپ (اونٹنی پر) سوار ہو گئے۔ پھر ہم چلتے ہوئے لوگوں کے پاس پہنچے تو ہم نے اُنہیں نماز پڑھتے ہوئے پایا، اُنہوں نے سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو آگے کیا ہوا تھا اور وہ اُنہیں نماز فجر کی ایک رکعت پڑھا چکے تھے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ صف میں کھڑے ہو گئے اور سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اﷲ عنہ کے پیچھے دوسری رکعت پڑھی۔ پھر سیدنا عبدالرحمان رضی اﷲ عنہ نے سلام پھیر دیا اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر اپنی نماز مکمّل کرنے لگے - اس پر مسلمان سخت گھبرا گئے اور بکثرت تسبیحات پڑھنے لگے۔ کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نماز پڑھ لی تھی۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو انہیں فرمایا: ”تم نے بہت اچھا کام کیا ہے، یا تم نے درست کام کیا ہے (کہ نماز کو اُس کے وقت پر با جماعت ادا کر لیا ہے)۔“