سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہری قراءت کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قراءت کی مقدار کے برابر (لمبا) رکوع کیا، پھر (رکوع سے سر مبارک) اُٹھایا تو (پھر اپنی پہلی قراءت جتنی قراءت کی) پھر اپنی قراءت کی مقدار کے برابر رکو ع کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اُٹھایا اور سجدے کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری رکعت کے لئے اُٹھے تو پھر اسی طرح (قراءت اور رکوع) کیا جس طرح پہلی رکعت میں کیا تھا۔ پھر فرمایا: ”بیشک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ انہیں کسی انسان کی موت کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا لہٰذ جب گرہن لگے تو نماز کی طرف لپکو (تاکہ اللہ تعالیٰ تمہاری یہ مشکل حل کرے) روای کہتے ہیں کہ اُس دن (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر) سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تھی تو لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ سورج گرہن سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی موت کی وجہ سے لگا ہے۔