صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر

صحيح ابن خزيمه
نماز میں بُھول چُوک کے ابواب کا مجموعہ
661. (428) بَابُ ذِكْرِ الْمُصَلِّي يَشُكُّ فِي صَلَاتِهِ وَلَهُ تَحَرٍّ،
661. اس نمازی کا بیان جسے اپنی نماز میں(کمی بیشی کا) شک ہو جاتا ہے جبکہ وہ تحقیق و جستجو کی طاقت رکھتا ہے،
حدیث نمبر: Q1028
Save to word اعراب
والامر بالبناء على التحري إذا كان قلبه إلى احد العددين اميل، وكان اكثر ظنه انه قد صلى ما القلب إليه اميل وَالْأَمْرِ بِالْبِنَاءِ عَلَى التَّحَرِّي إِذَا كَانَ قَلْبُهُ إِلَى أَحَدِ الْعَدَدَيْنِ أَمْيَلَ، وَكَانَ أَكْثَرُ ظَنِّهِ أَنَّهُ قَدْ صَلَّى مَا الْقَلْبُ إِلَيْهِ أَمْيَلُ
اسی جستجو اور تحقیق پر بنیاد رکھنے کے حُکم کا بیان جبکہ اس کا دل کسی ایک عدد کی طرف زیادہ مائل ہو۔ اور اس کا غالب گمان ہو کہ جس عدد کی طرف اس کا دل زیادہ مائل ہے وہ اتنی نماز ادا کر چکا ہے

تخریج الحدیث:

حدیث نمبر: 1028
Save to word اعراب
حدثنا يوسف بن موسى ، وزياد بن ايوب ، قالا: حدثنا جرير ، عن منصور ، ح وحدثنا احمد بن عبدة ، اخبرنا فضيل يعني ابن عياض ، عن منصور ، ح وحدثنا ابو موسى ، ويعقوب الدورقي ، قالا: حدثنا عبد العزيز بن عبد الصمد ابو عبد الصمد ، حدثنا منصور ، ح وحدثنا ابو موسى ، حدثنا عبد الرحمن ، عن زائدة ، عن منصور ، ح وحدثنا ابو موسى ، ايضا حدثنا ابو داود ، ايضا نحوه عن زائدة ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن علقمة، عن عبد الله بن مسعود ، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فزاد في الصلاة او نقص منها، ثم اقبل علينا بوجهه، فقلنا: يا رسول الله حدث في الصلاة شيء؟ قال:" ما ذاك؟" فذكرنا له الذي صنع، فثنى رجله واستقبل القبلة، وسجد سجدتين، ثم انصرف إلينا، فقال:" إنه لو حدث في الصلاة شيء انباتكم، ولكني بشر، انسى كما تنسون، فإذا نسيت فذكروني، وايكم ما شك في صلاته فلينظر احرى ذلك للصواب، فليتم عليه، ثم يسلم، ويسجد سجدتين" هذا حديث ابي موسى عن عبد الرحمن. قال ابو موسى: قال ابن مهدي: فسالت سفيان عنه، فقال: قد سمعته من منصور، ولا احفظه. ولم يذكر احمد بن عبدة في حديثه: التحري، وقال:" فايكم سها في صلاته فلم يدر كم صلى فليسلم، ثم ليسجد سجدتي السهو". قال ابو بكر: في هذا الخبر إذا بنى على التحري سجد سجدتي السهو بعد السلام، وهكذا اقول وإذا بنى على الاقل سجد سجدتي السهو قبل السلام، على خبر ابي سعيد الخدري، ولا يجوز على اصلي دفع احد الخبرين بالآخر، بل يجب استعمال كل خبر في موضعه. والتحري هو ان يكون قلب المصلي إلى احد العددين اميل، والبناء على الاقل مسالة غير مسالة التحري، فيجب استعمال كلا الخبرين فيما روي فيهحَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، وَزِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ ، قَالا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، ح وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، أَخْبَرَنَا فُضَيْلٌ يَعْنِي ابْنَ عِيَاضٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى ، وَيَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ أَبُو عَبْدِ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى ، أَيْضًا حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، أَيْضًا نَحْوَهُ عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَادَ فِي الصَّلاةِ أَوْ نَقَصَ مِنْهَا، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ حَدَثَ فِي الصَّلاةِ شَيْءٌ؟ قَالَ:" مَا ذَاكَ؟" فَذَكَرْنَا لَهُ الَّذِي صَنَعَ، فَثَنَى رِجْلَهُ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَيْنَا، فَقَالَ:" إِنَّهُ لَوْ حَدَثَ فِي الصَّلاةِ شَيْءٌ أَنْبَأْتُكُمْ، وَلَكِنِّي بَشَرٌ، أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِي، وَأَيُّكُمْ مَا شَكَّ فِي صَلاتِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحْرَى ذَلِكَ لِلصَّوَابِ، فَلْيُتِمَّ عَلَيْهِ، ثُمَّ يُسَلِّمْ، وَيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ" هَذَا حَدِيثُ أَبِي مُوسَى عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ. قَالَ أَبُو مُوسَى: قَالَ ابْنُ مَهْدِيٍّ: فَسَأَلْتُ سُفْيَانَ عَنْهُ، فَقَالَ: قَدْ سَمِعَتْهُ مِنْ مَنْصُورٍ، وَلا أَحْفَظُهُ. وَلَمْ يَذْكُرْ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ فِي حَدِيثِهِ: التَّحَرِّي، وَقَالَ:" فَأَيُّكُمْ سَهَا فِي صَلاتِهِ فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى فَلْيُسَلِّمْ، ثُمَّ لِيَسْجُدْ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي هَذَا الْخَبَرِ إِذَا بَنَى عَلَى التَّحَرِّي سَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ بَعْدَ السَّلامِ، وَهَكَذَا أَقُولُ وَإِذَا بَنَى عَلَى الأَقَلِّ سَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ قَبْلَ السَّلامِ، عَلَى خَبَرِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَلا يَجُوزُ عَلَى أَصْلِي دَفْعُ أَحَدِ الْخَبَرَيْنِ بِالآخَرِ، بَلْ يَجِبُ اسْتِعْمَالُ كُلِّ خَبَرٍ فِي مَوْضِعِهِ. وَالتَّحَرِّي هُوَ أَنْ يَكُونَ قَلْبُ الْمُصَلِّي إِلَى أَحَدِ الْعَدَدَيْنِ أَمْيَلَ، وَالْبِنَاءُ عَلَى الأَقَلِّ مَسْأَلَةٌ غَيْرُ مَسْأَلَةِ التَّحَرِّي، فَيَجِبُ اسْتِعْمَالُ كِلا الْخَبَرَيْنِ فِيمَا رُوِيَ فِيهِ
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی تو اس نماز میں کچھ اضافہ کر دیا یا اس میں کچھ کمی کر دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف اپنے چہرہ مبارک کے ساتھ متوجہ ہوئے ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، کیا نماز میں کچھ تبدیلی ہوگئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: وہ کیا (تبدیلی) ہے؟ تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے متعلق بتایا دیا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پاؤں موڑا اور قبلہ رخ ہو کر سجدے کیے، پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر نماز میں کوئی تبدیلی ہوتی تو میں تمہیں بتا دیتا لیکن میں ایک انسان ہوں، میں بھی تمھاری طرح بھول جاتا ہوں، اس لئے جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دہانی کرادیا کرو - اور تم میں سے جس شخص کو بھی اپنی نماز میں (کمی بیشی) کا شک ہو تو وہ درست (تعداد رکعات) کے متعلق غوروفکر کرے پھر اسکے مطابق نماز مکمّل کرلے، پھر سلام پھیرلے اور دو سجدے کرے۔ یہ ابوموسیٰ کی عبدالرحمان سے روایت ہے۔ ابوموسٰی کہتے ہیں کہ جناب ابن مہدی نے فرمایا ہے میں نے امام سفیان سے اس کے متعلق پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا، میں نے یہ روایت منصور سے سنی تھی مگر مجھے یا د نہیں ہے۔ جناب احمد بن عبدہ نے اپنی روایت میں التحري (تحقیق و جستجو) کے الفاظ بیان نہیں کیے۔ اور کہا کہ تم میں سے جس شخص سے اپنی نماز میں بھول ہو جائے اور اسے پتہ نہ چلے کہ اُس نے کتنی نماز پڑھ لی ہے۔ تو وہ سلام پھیرنے کے بعد سہو کے دو سجدے کرلے۔ امام ابوبکر رحمه الله کہتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ نمازی جب تحقیق و جستجو پر بنیاد کر کے (نماز مکمّل کرے گا) تو سہو کے دو سجدے سلام پھیرنے کے بعد کر ے گا اور یہی میرا موقف ہے۔ اور جب کم ترین عدد پر بنا کرے گا تو سہو کے دو سجدے سلام پھیرنے سے پہلے کرے گا۔ جیسا کہ سیدنا سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے۔ میرے نزدیک ایک روایت کو دوسری کے ساتھ رد کرنا اصلاً درست اور جائز نہیں ہے بلکہ ہر روایت پر اس کے مقام پر عمل کرنا واجب ہے۔ التحري (تحیق و جستجو) یہ ہے کہ نمازی کا دل کسی ایک عدد کی طرف زیادہ مائل ہو جبکہ کم سے کم عدد پر بنیاد رکھنے کا مسئلہ تحری کے مسئلے سے مختلف ہے - لٰہذا دونوں روایتوں پر اسی طرح عمل کرنا واجب ہے جیسے وہ بیان کی گئی ہیں۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.