سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
Prayer (Tafarah Abwab Estaftah Assalah)
140. باب مَنْ رَأَى الْقِرَاءَةَ إِذَا لَمْ يَجْهَرْ
140. باب: امام زور سے قرآت نہ کرے تو مقتدی قرآت کرے اس کے قائلین کی دلیل۔
Chapter: Those Who Held That One Should Recite (Al-Fatihah) In Other Than The Aloud Prayers.
حدیث نمبر: 826
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا القعنبي، عن مالك، عن ابن شهاب، عن ابن اكيمة الليثي، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة، فقال:" هل قرا معي احد منكم آنفا؟ فقال رجل: نعم، يا رسول الله، قال: إني اقول مالي انازع القرآن، قال: فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه النبي صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلوات حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم". قال ابو داود: روى حديث ابن اكيمة هذا معمر، ويونس، واسامة بن زيد. عن الزهري، على معنى مالك.
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ، فَقَالَ:" هَلْ قَرَأَ مَعِيَ أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفًا؟ فَقَالَ رَجُلٌ: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِنِّي أَقُولُ مَالِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ، قَالَ: فَانْتَهَى النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِرَاءَةِ مِنَ الصَّلَوَاتِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى حَدِيثَ ابْنِ أُكَيْمَةَ هَذَا مَعْمَرٌ، وَيُونُسُ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ. عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَلَى مَعْنَى مَالِكٍ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نماز سے جس میں آپ نے بلند آواز سے قرآت کی تھی پلٹے تو فرمایا: کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ ابھی ابھی قرآت کی ہے؟، تو ایک آدمی نے عرض کیا: ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: تبھی تو میں (دل میں) کہہ رہا تھا کہ کیا ہو گیا ہے کہ قرآن میں میرے ساتھ کشمکش کی جا رہی ہے۔ زہری کہتے ہیں: جس وقت لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا تو جس نماز میں آپ جہری قرآت کرتے تھے، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآت کرنے سے رک گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن اکیمہ کی اس حدیث کو معمر، یونس اور اسامہ بن زید نے زہری سے مالک کی حدیث کے ہم معنی روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الصلاة 117 (312)، سنن النسائی/الافتتاح 28 (920)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 13 (848، 849)، (تحفة الأشراف: 14264)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة 10(44)، مسند احمد (2/240، 284، 285، 302، 487) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Abu Hurairah: When the Messenger of Allah ﷺ finished a prayer in which he had recited (the Quran) loudly, he asked: Did any of you recite along with me just now? A man replied: Yes, Messenger of Allah. He said: I am wondering what is the matter with me that I have been contended with reciting the Quran. He said: When the people heard that from the Messenger of Allah ﷺ they ceased reciting (the Quran) along with him at the prayers in which he recited aloud. Abu Dawud said: This tradition reported by Ibn Ukaimah has also been narrated by Mamar, Yunus, and Usamah bin Zaid on the authority of al-Zuhri similar to the tradition of Malik.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 825


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
ابن شهاب الزھري صرح بالسماع عند الحميدي (959 وسنده حسن) عماره بن اكيمه الليثي وثقه يعقوب الفارسي والترمذي وابن حبان وابو عوانه وابن عبد البر وقال ابن معين: ’’اسم بن أكيمة عمرو بن مسلم وهو ثقة وقد روي عنه الزهري ومحمد بن عمرو‘‘، وقوله: ’’فانتھي الناس‘‘ مدرج من كلام الزھري ولم يثبت عن أبي ھريرة رضي الله عنه، وانظر الاتحاف الباسم شرح موطا رواية ابن القاسم (ص 165 ح 80)

   سنن النسائى الصغرى920عبد الرحمن بن صخرما لي أنازع القرآن
   جامع الترمذي312عبد الرحمن بن صخرمالي أنازع القرآن
   سنن أبي داود826عبد الرحمن بن صخرمالي أنازع القرآن
   سنن ابن ماجه848عبد الرحمن بن صخرما لي أنازع القرآن
   مسندالحميدي983عبد الرحمن بن صخرهل قرأ معي منكم أحد؟

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 826 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 826  
826۔ اردو حاشیہ:
➊ امام جب سری قرأت کر رہا ہو تو مقتدی بھی قرأت کریں۔ سورۃ فاتحہ اور مذید بھی پڑھیں۔
➋ یہ استدلال کہ امام جہری قرأت کرے اور مقتدی فاتحہ بھی نہ پڑھے، ہرگز راحج نہیں ہے۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے ا گلی روایت سے ثابت کیا ہے کہ «فانتهي الناس عن القراة» جناب زہری کا مقولہ ہے نہ کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا۔ لہٰذا مدرج ہونے کی وجہ سے ناقابل حجت ٹھرا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 826   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 920  
´جہری نماز میں امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے جس میں آپ نے زور سے قرآت فرمائی تھی سلام پھیر کر پلٹے تو پوچھا: کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قرآت کی ہے؟ تو ایک شخص نے کہا: جی ہاں! اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج بھی میں کہہ رہا تھا کہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن چھینا جا رہا ہے۔‏‏‏‏ زہری کہتے ہیں: جب لوگوں نے یہ بات سنی تو جن نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زور سے قرآت فرماتے تھے ان میں قرآت سے رک گئے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 920]
920 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار مقتدی کے اونچا پڑھنے پر تھا کیونکہ امام کو دقت تبھی پیش آئے گی جب کسی کی گن گن اس تک پہنچتی ہو گی۔ اگر وہ آہستہ پڑھے، اس کی آواز کسی کو نہ سنائی دے تو اس سے کسی کو کیا خلجان یا منازعت ہو سکتی ہے؟ البتہ جہری نماز میں مقتدیوں کو فاتحہ سے زائد پرھنے سے صراحتاً روکا گیا ہے، لہٰذا جہری نمازوں میں مقتدی سورۂ فاتحہ سے زائد نہیں پڑھ سکتا، نہ جہراً نہ سراً۔ آخری قول سے مراد بھی سورۂ فاتحہ سے زائد قرأت ہے جس سے لوگ رک گئے۔ باقی رہی سورۂ فاتحہ تو خود راویٔ حدیث میں اس کے پڑھنے کا فتویٰ دیتے تھے۔ [ديكهيے، حديث: 910]
یاد رہے کہ یہ آخری قول امام زہری کا ہے جو صغار تابعین میں سے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، امام ابن قیم اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے امام بخاری رحمہ اللہ، امام مالک، امام ابوداود، امام ترمذی اور امام بیہقی رحمہ اللہ جیسے عظیم محدثین اور ائمہ، جرح و تعدیل کے اقوال نقل کیے ہیں کہ یہ امام زہری کا اپنا کلام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں۔ دیکھیے: [التلخیص الجبیر، رقم: 344، عون المعبود: 3؍50۔ 52]
واللہ أعلم۔ انہوں نے یہ بات: «فانتهي الناس عن القراءة . . . الخ» کس سے سنی؟ یہ صراحت نہیں، لہٰذا یہ مرسل ہے اور «مراسيل الزهري كالريح» زہری کی مرسل روایات ہوا کی طرح ہیں لہٰذا ان کا یہ قول بھی ہوا کی طرح ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 920   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث848  
´جہری نماز میں امام قرات کرے تو اس پر خاموش رہنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کوئی نماز پڑھائی، (ہمارا خیال ہے کہ وہ صبح کی نماز تھی) نماز سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے کسی نے قراءت کی ہے؟، ایک آدمی نے کہا: جی ہاں، میں نے کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں سوچ رہا تھا کہ کیا بات ہے قرآن پڑھنے میں کوئی مجھ سے منازعت (کھینچا تانی) کر رہا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 848]
اردو حاشہ:
فوائدو مسائل:

(1)
جہری نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد امام کی قراءت خاموشی سے سننی چاہیے۔

(2)
تشہد میں سب سے پہلے التحیات للہ۔
۔
۔
آخر تک پوری دعا۔
اس کے بعد درود شریف۔
اورپھر دوسری دعایئں پڑھنی چاہییں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 848   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 312  
´امام جہر سے قرأت کرے تو اس کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس نماز سے فارغ ہونے کے بعد جس میں آپ نے بلند آواز سے قرأت کی تھی تو فرمایا: کیا تم میں سے ابھی کسی نے میرے ساتھ قرأت کی ہے؟ ایک شخص نے عرض کیا: جی ہاں اللہ کے رسول! (میں نے کی ہے) آپ نے فرمایا: تبھی تو میں یہ کہہ رہا تھا: آخر کیا بات ہے کہ قرآن کی قرأت میں میری آواز سے آواز ٹکرائی جا رہی ہے اور مجھ پر غالب ہونے کی کوشش کی جاری ہے، وہ (زہری) کہتے ہیں: تو جب لوگوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے یہ بات سنی تو لوگ رسول اللہ صلی الله ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 312]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ جابر رضی اللہ عنہ کا اپنا خیال ہے،
اعتبار مرفوع روایت کا ہے نہ کہ کسی صحابی کی ایسی رائے کا جس کے مقابلے میں دوسرے صحابہ کی آراء موجود ہیں وہ آراء حدیث کے ظاہرمعنی کے مطابق بھی ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 312   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:983  
983- سیدنا ابویرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کر لی تو ارشاد فرمایا: کیا میرے ساتھ تم میں سے کسی ایک نے تلاوت کی ہے؟ تو ایک صاحب نے عرض کی: جی ہاں! میں نے کی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: میں بھی سوچ رہا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ قرآن میں میرے ساتھ مقابلہ کیا جارہا ہے۔‏‏‏‏ سفیان کہتے ہیں: پھر زہری نے کوئی بات بیان کی جسے میں سمجھ نہیں سکا۔ بعد میں معمر نے مجھے بتایا کہ انہوں نے یہ کہا تھا: اس کے بعد لوگ ان نمازوں میں قرأت کرنے سے رک گئے جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:983]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جب امام سورہ فاتحہ کے بعد کسی اور سورت کی قرأت کر رہا ہوتو مقتدیوں کو پیچھے قرأت نہیں کرنی چاہیے، بلکہ سننا چاہیے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ سورہ فاتحہ ہر کسی پر پڑھنا فرض ہے تفصیل کے لیے استاذ محترم محدث العصر شیخ ارشاد الحق اثری ﷾ کی کتابتوضیح الکلام کا مطالعہ کریں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 982   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.