«ولعاب كلب»
اور کتے کا لعاب
(نجس ہے)۔
➊ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إذا ولغ الكلب فى إناء أحدكم فليرقه ثم ليغسله سبع مرات أولاهن بالتراب» ”جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال جائے تو اسے
(یعنی پانی کو) بہا دینا چاہیے اور برتن کو سات مرتبہ دھونا چاہیے البتہ پہلی مرتبہ مٹی کے ساتھ دھویا جائے۔
“ [بخاري 172] اور جامع ترمذی میں یہ لفظ ہیں
«وأخراهن أو أولاهنه» آخری مرتبہ یا پہلی مرتبہ
(مٹی کے ساتھ دھویا جائے)۔
[ترمذي 91] ۱؎
کتا بذات خود اور اس کا لعاب نجس ہے یا نہیں اس میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(شافعیہ، حنابلہ) کتا اور اس سے خارج ہونے والی ہر چیز مثلاًً اس کا لعاب اور پسینہ وغیرہ سب نجس ہے
(ان کی دلیل گزشتہ حدیث ہے)۔
[المغني 52/1] ۲؎
(مالکیہ) نہ تو کتا بذات خود نجس ہے اور نہ ہی اس کا لعاب۔ اور جس برتن میں کتا منہ ڈال جائے اسے دھونے کا حکم تعبدی ہے نہ کہ نجاست کی وجہ ہے۔
[المغني 52/1] ۳؎
(احناف) صرف کتے کا منہ، اس کا لعاب اور اس کا پاخانہ وغیرہ نجس ہے، کتا بذات خود نجس نہیں کیونکہ اس سے پہرے اور شکار کا کام لیا جاتا ہے۔
[بدائع الصنائع 63/1] ۴؎
(جمہور فقہاء) کتے کا لعاب گزشتہ حدیث کی بنا پر نجس ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اس کا منہ بھی نجس ہے کیونکہ لعاب منہ کا ایک جز ہے اور جب جسم کا سب سے اشرف جز
(منہ) نجس ہے تو بقیہ جسم کا نجس ہونا تو بالاولیٰ ضروری ہے۔
[المحموع للنووي 567/2] ۵؎
(ابن تیمیہ اللہ رحمہ اللہ) کتے کا لعاب نص کی وجہ سے نجس ہے اور اس کے بقیہ تمام اجزا قیاس کی وجہ سے نجس ہیں البتہ اس کے بال
پاک ہیں۔
[مجموع الفتاوي 216/21 -220]
(شوکانی رحمہ اللہ) حدیث کی وجہ سے صرف کتے کا لعاب نجس ہے۔ علاوہ ازیں اس کی بقیہ مکمل ذات
(یعنی گوشت، ہڈیاں، خون، بال
اور پسینہ وغیرہ) پاک ہے کیونکہ اصل طہارت ہے اور اس کی ذات کی نجاست کے متعلق کوئی دلیل موجود نہیں۔
[السيل الحرار 37/1] ۶؎
(راجح) امام شوکانی رحمہ اللہ کا موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔
(واللہ اعلم)
جس برتن میں کتا منہ ڈال جائے اسے سات مرتبہ دھونا
جس برتن میں کتا منہ ڈال جائے اسے سات مرتبہ دھونا واجب ہے جیسا کہ گزشتہ حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم موجود ہے۔
[بخاري 172]
(احمد رحمہ اللہ، شافعی رحمہ اللہ، ما لک رحمہ اللہ) اسی کے قائل ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما، حضرت عروہ رضی اللہ عنہ، امام ابن سیرین، امام طاوس، امام عمرو بن دینار، امام اوزاعی، امام اسحاق، امام ابوثور، امام ابوعبید، امام داود وغیرہ رحمہم اللہ اجمعین سب کا اسی طرف میلان و رجحان ہے۔
(احناف) سات مرتبہ دھونا مستحب ہے اور اگر تین مرتبہ ہی دھو لیا جائے تو کافی ہے۔
[الدر المختار 303/1] ۷؎
➊ ان کی دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے:
«ثم اغسله ثلاث مرات»
”پھر برتن کو تین مرتبہ دھو لو۔“ [دارقطني 83/1، كتاب الطهارة: بأب و لوغ الكلب فى الإناء]
یعنی راوی حدیث کا عمل اپنی ہی روایت کردہ مرفوع حدیث کے مخالف ہے لہٰذا اس پر عمل کرنا واجب نہیں۔
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلے میں کسی کی بات قبول نہیں کی جائے گی، نیز ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سات مرتبہ دھونے کا فتوی بھی منقول ہے۔
[نيل الأوطار 76/1] ۸؎
➋ احناف کا مستدل یہ بھی ہے کہ پاخانہ کتے کے جوٹھے سے زیادہ نجس ہے لیکن جب اسے سات مرتبہ دھونے کی قید نہیں لگائی گئی تو اس میں بالاولیٰ ضروری نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قیاس صریح نص کے مقابلے میں ہے لہٰذا اس کا اعتبار فاسد ہے۔
[تحفة الأحوذي 317/1] ۹؎
(علامیہ عینی رحمہ اللہ) انہوں نے بھی اس قیاس کو فاسد قرار دیا ہے۔
[عمدة القاري 340/2] ۹؎
خلاصہ کلام یہ ہے کہ برتن کو سات مرتبہ دھونا ہی واجب ہے جیسا کہ ابتدا میں حدیث بیان کر دی گئی ہے۔
------------------
۱؎ [بخاري 172، كتاب الوضوء: باب الماء الذى يغسل به شعر الإنسان . . .، مسلم 279، نسائي 63، شرح السنة 378/1، أحمد 427/2، أبو داود 71، ترمذي 91، شرح معاني الآثار 21/1، دارقطني 64/1، بيهقي 240/1، عبدالرزاق 330، ابن أبى شيبة 173/1، ابن خزيمة 90، ابن حبان 1297، مؤطا 34/1]
۲؎ [المغني 52/1، مغني المحتاج 78/1، كشاف القناع 208/1]
۳؎ [المنتقى للباحي 73/1، الشرح الصغير 43/1، الترح الكبير 83/1]
۴؎ [فتح القدير 64/1، رد المحتار لابن عابدين 192/1، بدائع الصنائع 63/1]
۵؎ [المحموع للنووي 567/2، الروض النضير 244/1]
۶؎ [المنتقى للباجي 73/1، السيل الحرار 37/1]
۷؎ [المغني 52/1، كشاف القناع 208/1، المجموع 188/1، بداية المجتهد 83/1، بدائع الصنائع 87/1، الدر المختار 303/1]
۸؎ [نيل الأوطار 76/1، سبل السلام 28/1]
۹؎ [فتح الباري 371/1، تحفة الأحوذي 317/1]
* * * * * * * * * * * * * *