(مرفوع) حدثنا محمد بن منصور الطوسي، حدثنا يعقوب، حدثنا ابي، عن محمد بن إسحاق، حدثني محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي، عن محمد بن عبد الله بن زيد بن عبد ربه، قال: حدثني ابي عبد الله بن زيد، قال:" لما امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناقوس يعمل ليضرب به للناس لجمع الصلاة، طاف بي وانا نائم رجل يحمل ناقوسا في يده، فقلت: يا عبد الله، اتبيع الناقوس؟ قال: وما تصنع به؟ فقلت: ندعو به إلى الصلاة، قال: افلا ادلك على ما هو خير من ذلك؟ فقلت له: بلى، قال: فقال: تقول: الله اكبر الله اكبر، الله اكبر الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله، قال: ثم استاخر عني غير بعيد، ثم قال: وتقول إذا اقمت الصلاة: الله اكبر، الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله، فلما اصبحت، اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته بما رايت، فقال: إنها لرؤيا حق إن شاء الله، فقم مع بلال فالق عليه ما رايت فليؤذن به فإنه اندى صوتا منك، فقمت مع بلال فجعلت القيه عليه ويؤذن به، قال: فسمع ذلك عمر بن الخطاب وهو في بيته فخرج يجر رداءه، ويقول: والذي بعثك بالحق يا رسول الله، لقد رايت مثل ما راى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فلله الحمد"، قال ابو داود: هكذا رواية الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن عبد الله بن زيد، وقال فيه ابن إسحاق: عن الزهري، الله اكبر الله اكبر، الله اكبر الله اكبر، وقال معمر،ويونس: عن الزهري فيه، الله اكبر، الله اكبر، لم يثنيا. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الطُّوسِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ:" لَمَّا أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاقُوسِ يُعْمَلُ لِيُضْرَبَ بِهِ لِلنَّاسِ لِجَمْعِ الصَّلَاةِ، طَافَ بِي وَأَنَا نَائِمٌ رَجُلٌ يَحْمِلُ نَاقُوسًا فِي يَدِهِ، فَقُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، أَتَبِيعُ النَّاقُوسَ؟ قَالَ: وَمَا تَصْنَعُ بِهِ؟ فَقُلْتُ: نَدْعُو بِهِ إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ؟ فَقُلْتُ لَهُ: بَلَى، قَالَ: فَقَالَ: تَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: ثُمَّ اسْتَأْخَرَ عَنِّي غَيْرَ بَعِيدٍ، ثُمَّ قَالَ: وَتَقُولُ إِذَا أَقَمْتَ الصَّلَاةَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ، أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا رَأَيْتُ، فَقَالَ: إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقٌّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَأَلْقِ عَلَيْهِ مَا رَأَيْتَ فَلْيُؤَذِّنْ بِهِ فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا مِنْكَ، فَقُمْتُ مَعَ بِلَالٍ فَجَعَلْتُ أُلْقِيهِ عَلَيْهِ وَيُؤَذِّنُ بِهِ، قَالَ: فَسَمِعَ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ فَخَرَجَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ، وَيَقُولُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ مَا رَأَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَلِلَّهِ الْحَمْدُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَكَذَا رِوَايَةُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، وقَالَ فِيهِ ابْنُ إِسْحَاق: عَنْ الزُّهْرِيِّ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، وقَالَ مَعْمَرٌ،وَيُونُسُ: عَنْ الزُّهْرِيِّ فِيهِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَمْ يُثَنِّيَا.
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقوس کی تیاری کا حکم دینے کا ارادہ کیا تاکہ لوگوں کو نماز کی خاطر جمع ہونے کے لیے اسے بجایا جا سکے تو ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص ۱؎ کے ہاتھ میں ناقوس ہے، میں نے اس سے پوچھا: اللہ کے بندے! کیا اسے فروخت کرو گے؟ اس نے کہا: تم اسے کیا کرو گے؟ میں نے کہا: ہم اس کے ذریعے لوگوں کو نماز کے لیے بلائیں گے، اس شخص نے کہا: کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتا دوں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور بتائیے، تو اس نے کہا: تم اس طرح کہو «الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الصلاة حى على الفلاح حى على الفلاح الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله» اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز کے لیے آؤ، نماز کے لیے آؤ، کامیابی کی طرف آؤ، کامیابی کی طرف آؤ، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر وہ شخص مجھ سے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا، زیادہ دور نہیں گیا پھر اس نے کہا: جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اس طرح کہو: «الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الفلاح قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله»“۔ پھر جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو کچھ میں نے دیکھا تھا اسے آپ سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان شاءاللہ یہ خواب سچا ہے“، پھر فرمایا: ”تم بلال کے ساتھ اٹھ کر جاؤ اور جو کلمات تم نے خواب میں دیکھے ہیں وہ انہیں بتاتے جاؤ تاکہ اس کے مطابق وہ اذان دیں کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند ہے“۲؎۔ چنانچہ میں بلال کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا، میں انہیں اذان کے کلمات بتاتا جاتا تھا اور وہ اسے پکارتے جاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے گھر میں سے سنا تو وہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے اور کہہ رہے تھے: اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے بھی اسی طرح دیکھا ہے جس طرح عبداللہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الحمدللہ“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح زہری کی روایت ہے، جسے انہوں نے سعید بن مسیب سے، اور سعید نے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اس میں ابن اسحاق نے زہری سے یوں نقل کیا ہے: «الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر»(یعنی چار بار) اور معمر اور یونس نے زہری سے صرف «الله أكبر الله أكبر» کی روایت کی ہے، اسے انہوں نے دہرایا نہیں ہے۔
وضاحت: ۱؎: یہ ایک فرشتہ تھا جو اللہ کی طرف سے اذان سکھانے کے لئے مامور ہوا تھا۔ ۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ مؤذن کا بلند آواز ہونا بہتر ہے۔ بلال رضی اللہ عنہ کی اذان میں اذان دہری اور اقامت اکہری ذکر ہوئی ہے۔ فجر کی اذان میں «الصلاة خير من النوم» کہنا مسنون اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے (سنن ابوداود، حدیث نمبر ۵۰۱ دیکھئیے)۔ بلال رضی اللہ اور ابومحذورہ رضی اللہ عنہا کی اذانوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اذان سے پہلے کوئی کلمات نہیں ہیں۔ حتی کہ «اعوذ باللہ من الشیطان الرحیم» یا «بسم اللہ الرحمن الرحیم» بھی نہیں، اذان اللہ اکبر سے شروع ہو گی۔ اسی طرح آخر میں «لا الہ الا اللہ» کے بعد «محمد رسول اللہ» بھی نہیں ہے جیسا کہ بعض سادہ لوح موذن کرتے ہیں۔ اس سے ترجیع یعنی شہادتین کو دو دو بار کہنا ثابت ہوا۔
Abdullah bin Zaid reported: when the Messenger of Allah ﷺ ordered a bell to be made so that it might be struck to gather the people for prayer, a man carrying a bell in his hand appeared to me while I was asleep, and I said; servant of Abdullah, will you sell the bell? He asked; what will you do with it? I replied; we shall use it to call the people to prayer. He said; should I not suggest you something better than that. I replied: certainly. Then he told me to say: Allah is most great, Allah is most great, Allah is most great, Allah is most great. I testify that there is no god but Allah, I testify that Muhammad is the Messenger of Allah. Come to pray, come to pray; come to salvation; come to salvation. Allah is most great, Allah is most great. I testify that there is no god but Allah. He then moved backward a few steps and said: when you utter the IQAMAH, you should say: Allah is most great, Allah is most great. I testify that there is no god but Allah, I testify that Muhammad is the Messenger of Allah. Come to prayer, come to salvation. The time for prayer has come, the time for prayer has come: Allah is most great, Allah is most great. There is no god but Allah. When the morning came, I came to the Messenger of Allah ﷺ and informed him of what I had seen in the dream. He said: it is a genuine vision, and he then should use it to call people to prayer, for he has a louder voice than you have. So I got up along with Bilal and began to teach it to him and he used it in making the call to prayer. Umar bin al-khattab (Allah be pleased with him) heard it while he was in his house and came out trailing his cloak and said: Messenger of Allah. By him who has sent you with the truth, I have also seen the kind of thing as has been shown to him. The Messenger of Allah ﷺ said: To Allah be the praise. Abu Dawud said; Al-Zuhri narrated this tradition in a similar way from Saeed bin al-Musayyib on the authority of Abdullah bin Zaid. In this version Ibn Ishaq narrated from al-Zuhri: Allah is most great. Allah is most great, Allah is most great, Allah is most great. Ma;mar and yunus narrated from al-Zuhri; Allah is most great, Allah is most great. They did not report it twice again.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 499
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (650)
الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حي على الصلاة حي على الصلاة حي على الفلاح حي على الفلاح الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله قال ثم استأخر عني غير بعي
حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 499
فوائد: حدیث جبریل [مسلم: 8] نماز کے بعد ذکر کے سلسلے میں حدیث زيد بن ثابت [سنن نسائي: 1351] اور مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کی غرض سے فرشتے انسانی شکل میں آیا کرتے تھے اور بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم (بذریعہ وحی) اس کی تصدیق فرما دیتے تھے۔ لیکن واضح رہے کہ شریعت میں غیر نبی کے خواب قطعاً حجت نہیں ہیں، اِلاَّ یہ کہ دور نبوی میں جن خوابوں کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تصدیق فرمائی ہو، علاوہ ازیں کسی خواب سے کوئی شرعی مسئلہ اخذ نہیں کیا جا سکتا جبکہ بعض الناس کے مسالک و مذاہب کی بنیاد ہی خوابوں پر ہے جو صریحاً باطل ہے۔
ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 6
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 499
499۔ اردو حاشیہ: سچے خوابوں کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ یہ نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہوتے ہیں، اور بالعموم انسان کے اعمال و افکار اور خوابوں میں مطابقت ہوا کرتی ہے۔ یہ خواب حضرت عبداللہ بن زید اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی فطری سعادت کی دلیل ہے۔ ➋ چاہیے کہ موذن بلند و شیریں آواز اور عمدہ لہجے والا ہو۔ ➌ بہتر ہے کہ اذان اور اقامت کی جگہیں مختلف ہوں۔ ➍ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان میں اذان دہری اور اقامت اکہری ذکر ہوئی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 499
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 144
´اذان کا بیان` «. . . عن عبد الله بن زيد بن عبد ربه قال: طاف بي وأنا نائم رجل فقال: تقول: الله أكبر الله أكبر فذكر الأذان بتربيع التكبير بغير ترجيع والإقامة فرادى إلا قد قامت الصلاة . . .» ”. . . سیدنا عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خواب میں مجھے ایک آدمی ملا جس نے مجھے کہا کہ کہو «الله أكبر الله أكبر» پھر اس نے ساری اذان کہی، چار مرتبہ «الله أكبر» کہا۔ بغیر ترجیع کے اور اقامت میں صرف ایک ایک مرتبہ کہا، مگر «قد قامت الصلاة» کو دو مرتبہ کہا . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 144]
� لغوی تشریح: «بِتَرْبِيع التَّكْبِيرِ» اللہ اکبر چار مرتبہ کہنا۔ «بِغَيْرِ تَرْجِيعٍ» ترجیع کے معنی ہیں کہ اذان میں شہادتین کو پہلے دو مرتبہ پست (آہستہ) آواز سے ادا کرنا، پھر دوبارہ دو مرتبہ بآواز بلند ادا کرنا۔ «وَالْإِقَامَةَ» اس سے مراد کلمات اقامت ہیں۔ «فُرَاديٰ» اقامت میں ہر کلمہ صرف ایک ایک مرتبہ ادا کرنا، البتہ «قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ» دو مرتبہ ادا کرنا۔ «لرُؤْيَا حقّ»”لام“ اس میں برائے تاکید ہے اور «رُؤيَا»، حقّ کی طرف مضاف ہے، «رؤيا» سے مراد خواب ہے۔ خواب سے مراد وہ چیز ہے جسے آدمی نیند کی حالت میں دیکھتا ہے۔ «اَلْحَدِيث» اس کی تین اعرابی حالتیں ممکن ہیں: ایک یہ کہ اسے مرفوع پڑھا جائے، تو اس صورت میں یہ مبتدا ہو گا اور اس کی خبر «بِتَمَامِهِ» محذوف ہو گی۔ یا پھر دوسری صورت میں اسے منصوب پڑھا جائے، تو اس صورت میں عبارت «اِقْرَأَ الْحَدِيثَ وَتَمِّمْهُ» ہو گی اور تیسری صورت میں اسے مجرور بھی پڑھا جا سکتا ہے، اس صورت میں عبارت «إِليٰ آخِرِ الْحَدِيثِ» ہو گی۔ «زَادَ أَحْمَدُ فِي آخِرِهٖ» حدیث کے ظاہر الفاظ سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ امام أحمد نے سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث میں ان الفاظ کا اضافہ نقل کیا ہے، حالانکہ یہ اضافہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، نہ کہ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں، اس لیے مراد یہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اذان کے بارے میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرتے ہوئے صبح کی اذان میں «اَلصَّلَاةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْم» کا اضافہ نقل کیا ہے۔
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں ہجرت کے پہلے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ نماز باجماعت کے لئے بلانے کا کیا طریقہ ہونا چاہیئے۔ بعض نے کہا: نماز کے لئے ناقوس (گھڑیال) بجایا جائے۔ بعض نے بلندی پر آگ روشن کرنے کا مشورہ دیا۔ بعض نے بوق (بگل) سے کام لینے کا مشورہ دیا لیکن یہ سب مشورے رد کر دیے گئے کیونکہ گھڑیال بجانا عیسائیوں کا، بگل بجانا یہودیوں کا اور آگ جلانا مجوسیوں کا شعار ہے۔ اسی دوران میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ نمازوں کی طرف بلانے کے لیے اذان دی جائے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو بآواز بلند «اَلصَّلَاةُ جَامِعَةٌ» کہنے کا حکم دیا۔ اسی اثناء میں عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ جو مذکورہ بالا حدیث کے راوی ہیں، میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی ناقوس اٹھائے ہوئے ہے۔ سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اس سے دریافت کیا: اللہ کے بندے! کیا تم ناقوس فروخت کرتے ہو؟ اس نے پوچھا: کہ تم اس سے کیا کرو گے؟ سیدنا سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اس کے ذریعے سے (لوگوں کو) نماز باجماعت کے لئے بلائیں گے۔ اس شخص نے کہا: میں تمہیں اس سے بہتر طریقے سے نہ آگاہ کر دوں؟ سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، (ضرور بتائیں) تو اس نے (موجودہ) اذان اور اقامت کے الفاظ انہیں سکھائے۔ یہی خواب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا جسے آپ نے سچا اور صادق قرار دیا۔ ➋ اذان میں ترجیع مسنون ہے یا نہیں؟ اس بارے میں ائمہ کی آراء مختلف ہیں: ایک رائے یہ ہے کہ ترجیع ثابت ہے۔ اہلحدیث حضرات کی رائے یہی ہے۔ اور ایک رائے یہ ہے کہ ترجیع جس صحابی سے ثابت کی جاتی ہے اس صحابی کو تعلیم دینا مقصود تھا، اس لیے کہ سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ جنہیں آپ نے یہ تعلیم دی، نے پہلی مرتبہ اذان میں شہادتین «أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ» اور «أَشْهَدُ أَنْ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ» کو دھیمی اور پست آواز میں ادا کیا تھا، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوبارہ یہ کلمات کہنے کا حکم دیا۔ لیکن یہ تاویل درست نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محض سکھلانے کے لیے شہادتین کے الفاظ دوبارہ نہیں کہلوائے بلکہ آپ نے انہیں اذان دینے کا طریقہ ہی یہی سکھلایا۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد بھی مکہ مکرمہ میں اذان ترجیع سے ہوتی رہی۔ اس لیے اس کا انکار محض مجادلہ ہے۔ درست بات یہ ہے کہ اذان ترجیع اور بغیر ترجیع دونوں طرح ثابت ہے۔ اور صحیحین کی روایات کی بنا پر راجح یہ ہے کہ ترجیع والی اذان کے ساتھ اقامت دوہری اور عام اذان کے ساتھ اقامت اکہری کہی جائے۔
راویٔ حدیث: (سیدنا عبد اللہ بن زید بن عبد ربہ رضی اللہ عنہ) ابومحمد ان کی کنیت ہے۔ انصار کے قبیلہ خزرج سے تعلق کی وجہ سے انصاری خزرجی کہلائے۔ عقبہ اور غزوہ بدر میں شریک ہوئے، نیز ان کے علاوہ باقی غزوات میں بھی شریک رہے۔ ہجرت مدینہ کے پہلے سال انہوں نے خواب میں موجود اذان کی کیفیت دیکھی تھی۔ اور یہ واقعہ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد کا ہے۔ انہوں نے 32 ہجری میں 64 برس کی عمر میں وفات پائی۔ (سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ) قبیلہ تیم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ قدیم الاسلام ہیں۔ ان کو راہ حق میں بہت اذیتیں اور تکالیف دی گئیں۔ انہیں بھی غزوات بدر و احد اور احزاب وغیرہ سبھی میں شرکت کا شرف حاصل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن تھے۔ آپ کی وفات کے بعد انہوں نے اذان کہنا بند کر دی تھی اور مدینہ طیبہ چھوڑ کر دمشق میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ ایک دفعہ وہاں سے مدینے آئے اور لوگوں کے اصرار پر اذان شروع کی تو کہا جاتا ہے کہ وہ اسے پورا نہ کر سکے۔ اس قدر ان پر رقت طاری ہو گئی کہ روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ 17 یا 18 یا 20 ہجری میں ساٹھ سال سے اوپر عمر پاکر فوت ہوئے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 144