سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
Prayer (Kitab Al-Salat)
27. باب بَدْءِ الأَذَانِ
27. باب: اذان کی ابتداء کیسے ہوئی؟
Chapter: How The Adhan Began.
حدیث نمبر: 498
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عباد بن موسى الختلي، وزياد بن ايوب، وحديث عباد اتم، قالا: حدثنا هشيم، عن ابي بشر، قال زياد، اخبرنا ابو بشر، عن ابي عمير بن انس، عن عمومة له من الانصار، قال:" اهتم النبي صلى الله عليه وسلم للصلاة كيف يجمع الناس لها، فقيل له: انصب راية عند حضور الصلاة فإذا راوها آذن بعضهم بعضا، فلم يعجبه ذلك، قال: فذكر له القنع يعني الشبور، وقال زياد: شبور اليهود فلم يعجبه ذلك، وقال: هو من امر اليهود، قال: فذكر له الناقوس، فقال: هو من امر النصارى، فانصرف عبد الله بن زيد بن عبد ربه وهو مهتم لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاري الاذان في منامه، قال: فغدا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبره، فقال له: يا رسول الله، إني لبين نائم ويقظان إذ اتاني آت فاراني الاذان، قال: وكان عمر بن الخطاب رضي الله عنه قد رآه قبل ذلك فكتمه عشرين يوما، قال: ثم اخبر النبي صلى الله عليه وسلم، فقال له: ما منعك ان تخبرني؟ فقال: سبقني عبد الله بن زيد فاستحييت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا بلال، قم فانظر ما يامرك به عبد الله بن زيد فافعله، قال: فاذن بلال، قال ابو بشر: فاخبرني ابو عمير، ان الانصار تزعم ان عبد الله بن زيد لولا انه كان يومئذ مريضا لجعله رسول الله صلى الله عليه وسلم مؤذنا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مُوسَى الْخُتَّلِيُّ، وَزِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، وَحَدِيثُ عَبَّادٍ أَتَمُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، قَالَ زِيَادٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ أَبِي عُمَيْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عُمُومَةٍ لَهُ مِنْ الْأَنْصَارِ، قَالَ:" اهْتَمَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلصَّلَاةِ كَيْفَ يَجْمَعُ النَّاسَ لَهَا، فَقِيلَ لَهُ: انْصِبْ رَايَةً عِنْدَ حُضُورِ الصَّلَاةِ فَإِذَا رَأَوْهَا آذَنَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، فَلَمْ يُعْجِبْهُ ذَلِكَ، قَالَ: فَذُكِرَ لَهُ الْقُنْعُ يَعْنِي الشَّبُّورَ، وَقَالَ زِيَادٌ: شَبُّورُ الْيَهُودِ فَلَمْ يُعْجِبْهُ ذَلِكَ، وَقَالَ: هُوَ مِنْ أَمْرِ الْيَهُودِ، قَالَ: فَذُكِرَ لَهُ النَّاقُوسُ، فَقَالَ: هُوَ مِنْ أَمْرِ النَّصَارَى، فَانْصَرَفَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ وَهُوَ مُهْتَمٌّ لِهَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُرِيَ الْأَذَانَ فِي مَنَامِهِ، قَالَ: فَغَدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَبَيْنَ نَائِمٍ وَيَقْظَانَ إِذْ أَتَانِي آتٍ فَأَرَانِي الْأَذَانَ، قَالَ: وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَدْ رَآهُ قَبْلَ ذَلِكَ فَكَتَمَهُ عِشْرِينَ يَوْمًا، قَالَ: ثُمَّ أَخْبَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تُخْبِرَنِي؟ فَقَالَ: سَبَقَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ فَاسْتَحْيَيْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا بِلَالُ، قُمْ فَانْظُرْ مَا يَأْمُرُكَ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ فَافْعَلْهُ، قَالَ: فَأَذَّنَ بِلَالٌ، قَالَ أَبُو بِشْرٍ: فَأَخْبَرَنِي أَبُو عُمَيْرٍ، أَنَّ الْأَنْصَارَ تَزْعُمُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَيْدٍ لَوْلَا أَنَّهُ كَانَ يَوْمَئِذٍ مَرِيضًا لَجَعَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُؤَذِّنًا".
ابو عمیر بن انس اپنے ایک انصاری چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فکرمند ہوئے کہ لوگوں کو کس طرح نماز کے لیے اکٹھا کیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ نماز کا وقت ہونے پر ایک جھنڈا نصب کر دیجئیے، جسے دیکھ کر ایک شخص دوسرے کو باخبر کر دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رائے پسند نہ آئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بگل ۱؎ کا ذکر کیا گیا، زیاد کی روایت میں ہے: یہود کے بگل (کا ذکر کیا گیا) تو یہ تجویز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہیں آئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں یہودیوں کی مشابہت ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ناقوس کا ذکر کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں نصرانیوں کی مشابہت ہے۔ پھر عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے لوٹے، وہ بھی (اس مسئلہ میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح فکرمند تھے، چنانچہ انہیں خواب میں اذان کا طریقہ بتایا گیا۔ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: وہ صبح تڑکے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ کو اس خواب کی خبر دی اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں کچھ سو رہا تھا اور کچھ جاگ رہا تھا کہ اتنے میں ایک شخص (خواب میں) میرے پاس آیا اور اس نے مجھے اذان سکھائی، راوی کہتے ہیں: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس سے پہلے یہ خواب دیکھ چکے تھے لیکن وہ بیس دن تک خاموش رہے، پھر انہوں نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے ان سے فرمایا: تم کو کس چیز نے اسے بتانے سے روکا؟، انہوں نے کہا: چونکہ مجھ سے پہلے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اسے آپ سے بیان کر دیا اس لیے مجھے شرم آ رہی تھی ۲؎، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال! اٹھو اور جیسے عبداللہ بن زید تم کو کرنے کو کہیں اسی طرح کرو، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی ۳؎۔ ابوبشر کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوعمیر نے بیان کیا کہ انصار سمجھتے تھے کہ اگر عبداللہ بن زید ان دنوں بیمار نہ ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ہی کو مؤذن بناتے۔

وضاحت:
۱؎: بخاری کی روایت میں «بوقۃ» کا لفظ ہے اور مسلم اور نسائی کی روایت میں «قرن» کا لفظ آیا ہے، یہ چاروں الفاظ ( «قنع»، «شبور»، «بوقۃ» اور «قرن») ہم معنی الفاظ ہیں، یعنی بگل اور نرسنگھا جس سے پھونک مارنے پر آواز نکلے۔
۲؎: عمر رضی اللہ عنہ خواب دیکھنے کے بعد بھول گئے تھے، بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سننے پر آپ کو یہ کلمات یاد آئے، اور جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ اپنا خواب بیان کر چکے تھے۔
۳؎: یہ اہتمام ۲ ہجری میں ہوا اس کے پہلے بغیر اذان کے نماز پڑھی جاتی تھی، اور لوگ خود بخود مسجد میں جمع ہو جایا کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15604) (حسن)» ‏‏‏‏

Narrated Abu Umayr ibn Anas: Abu Umayr reported on the authority of his uncle who was from the Ansar (the helpers of the Prophet): The Prophet ﷺ was anxious as to how to gather the people for prayer. The people told him: Hoist a flag at the time of prayer; when they see it, they will inform one another. But he (the Prophet) did not like it. Then someone mentioned to him the horn. Ziyad said: A horn of the Jews. He (the Prophet) did not like it. He said: This is the matter of the Jews. Then they mentioned to him the bell of the Christians. He said: This is the matter of the Christians. Abdullah ibn Zayd returned anxiously from there because of the anxiety of the Messenger ﷺ. He was then taught the call to prayer in his dream. Next day he came to the Messenger of Allah ﷺ and informed him about it. He said: Messenger of Allah, I was between sleep and wakefulness; all of a sudden a newcomer came (to me) and taught me the call to prayer. Umar ibn al-Khattab had also seen it in his dream before, but he kept it hidden for twenty days. The Prophet ﷺ said to me (Umar): What did prevent you from saying it to me? He said: Abdullah ibn Zayd had already told you about it before me: hence I was ashamed. Then the Messenger of Allah ﷺ said: Bilal, stand up, see what Abdullah ibn Zayd tells you (to do), then do it. Bilal then called them to prayer. Abu Bishr reported on the authority of Abu Umayr: The Ansar thought that if Abdullah ibn Zayd had not been ill on that day, the Messenger of Allah ﷺ would have made him muadhdhin.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 498


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   سنن أبي داود498موضع إرسالاهتم النبي للصلاة كيف يجمع الناس لها فقيل له انصب راية عند حضور الصلاة فإذا رأوها آذن بعضهم بعضا فلم يعجبه ذلك قال فذكر له القنع يعني الشبور وقال زياد شبور اليهود فلم يعجبه ذلك وقال هو من أمر اليهود قال فذكر له الناقوس فقال هو من أمر ال

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 498 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 498  
498۔ اردو حاشیہ:
«اذان» بمعنی اطلاع و اعلان۔ یعنی مخصوص کلمات کے ساتھ لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع دینا۔ بلند آواز سے اذان کہنا اسلام کے خاص شعائر (علامات) میں سے ہے۔ فقہاء نے اسے واجب کہا ہے اور بعض مستحب ہونے کے قائل ہیں۔ اس کے الفاظ میں اللہ عزوجل کی توحید و کبریائی، رسول کی رسالت کے اظہار و اعلان کے ساتھ ساتھ رب تعالیٰ کی اجتماعی بندگی کی دعوت ہوتی ہے اور یہ کہ دنیا اور آخرت کی فلاح کا یہی ایک حقیقی راستہ ہے، اذان کے الفاظ معانی اور آہنگ مسلمانوں کو دنیا کی تمام ملتوں سے ہر اعتبار سے ممتاز کرتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 498   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.