(مرفوع) حدثنا نصر بن عاصم الانطاكي، حدثنا الوليد، ومبشر يعني ابن إسماعيل الحلبي بإسناده، عن ابي عمرو، قال يعني الوليد: حدثنا ابو عمرو، قال: حدثني قتادة، عن ابي سعيد الخدري، وانس بن مالك، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: سيكون في امتي اختلاف وفرقة، قوم يحسنون القيل ويسيئون الفعل، يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم، يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية، لا يرجعون حتى يرتد على فوقه، هم شر الخلق والخليقة، طوبى لمن قتلهم وقتلوه، يدعون إلى كتاب الله وليسوا منه في شيء، من قاتلهم كان اولى بالله منهم"، قالوا: يا رسول الله، ما سيماهم؟ قال:" التحليق". (مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، وَمُبَشِّرٌ يَعْنِيَ ابْنَ إِسْمَاعِيلَ الْحَلَبِيَّ بِإِسْنَادِهِ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو، قَالَ يَعْنِي الْوَلِيدَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي اخْتِلَافٌ وَفُرْقَةٌ، قَوْمٌ يُحْسِنُونَ الْقِيلَ وَيُسِيئُونَ الْفِعْلَ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لَا يَرْجِعُونَ حَتَّى يَرْتَدَّ عَلَى فُوقِهِ، هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ، طُوبَى لِمَنْ قَتَلَهُمْ وَقَتَلُوهُ، يَدْعُونَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيْءٍ، مَنْ قَاتَلَهُمْ كَانَ أَوْلَى بِاللَّهِ مِنْهُمْ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا سِيمَاهُمْ؟ قَالَ:" التَّحْلِيقُ".
ابو سعید خدری اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں اختلاف اور تفرقہ ہو گا، کچھ ایسے لوگ ہوں گے، جو باتیں اچھی کریں گے لیکن کام برے کریں گے، وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا، وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ (اپنی روش سے) باز نہیں آئیں گے جب تک تیر سوفار (اپنی ابتدائی جگہ) پر الٹا نہ آ جائے، وہ سب لوگوں اور مخلوقات میں بدترین لوگ ہیں، بشارت ہے اس کے لیے جو انہیں قتل کرے یا جسے وہ قتل کریں، وہ کتاب اللہ کی طرف بلائیں گے، حالانکہ وہ اس کی کسی چیز سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتے ہوں گے، جو ان سے قتال کرے گا، وہ لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ سے قریب ہو گا“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان کی نشانی کیا ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سر منڈانا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ ومابعدہ، (تحفة الأشراف: 1312) (صحیح)» (قتادة کا ابوسعید خدری سے سماع نہیں ہے، ہاں، انس سے ثابت ہے)
Narrated Abu Saeed al-Khudri ; Anas ibn Malik: The Prophet ﷺ said: Soon there will appear disagreement and dissension in my people; there will be people who will be good in speech and bad in work. They recite the Quran, but it does not pass their collar-bones. They will swerve from the religion as an animal goes through the animal shot at. They will not return to it till the arrow comes back to its notch. They are worst of the people and animals. Happy is the one who kills them and they kill him. They call to the book of Allah, but they have nothing to do with it. He who fights against them will be nearer to Allah than them (the rest of the people). The people asked: What is their sign? He replied: They shave the head.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4747
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قتادة مدلس وعنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 166
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4765
فوائد ومسائل: 1: ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سندا ضعیف قراد دیا ہے، جبکہ دیگر محققین اس کو صحیح قراردیتے ہیں اور انہی کی رائے اقرب الی الصوب محسوس ہوتی ہے۔
2: انسان کے قول و فعل میں تضاد ہونا ایسی قبیح بات ہے جو اللہ عزوجل کے انتہائی غضب اور اس کی ناراضی کا باعث ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔ (كبر مقتًا عندَالله أن تقولوا مالا تفعلون)(الصف:٣) الله عزوجل كے نزديک انتہائی ناپسند ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں۔
3: دین کی من مانی تعبیر، فسق وفجور اور بدعات اور ان میں غلو کی نحوست یہ ہے کہ انسان توبہ اور حق کی طرف لوٹنے کی توفیق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
4: دین کی وہی تعبیر ومعتبر ہے جو جمہور صحابہ کرام رضی اللہ نے رسول اللہ ؐسے نقل کی۔
5: خلیفہ المسلمین کا فرض ہے کہ دین اور مسلمانوں میں فتنہ اور انتشار پیدا کرنے والوں کا قلع قلع کرے اور ان سے قتال کرنے والے یا اس میں شہید ہو جانے والے لوگ افضل لو گ ہوتے ہیں۔
6: سر کے بال بڑھا کر رکھنا منڈانے کی نسبت زیادہ افضل ہے تاکہ ایسے لوگوں سے مشا بہت نہ رہے۔ ویسے منڈانا بھی جائز ہے، جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ کا معمول تھا، البتہ خوارج اس کا التزام کرتے تھے اور یہ ان کی پہچان بن گئی تھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4765