(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، ومسدد، قالا: حدثنا يحيى بن سعيد، اخبرنا سعيد بن ابي عروبة، عن قتادة، عن الحسن، عن قيس بن عباد، قال: انطلقت انا والاشتر إلى علي عليه السلام، فقلنا: هل عهد إليك رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا لم يعهده إلى الناس عامة؟ قال: لا إلا ما في كتابي هذا، قال مسدد: قال: فاخرج كتابا، وقال احمد: كتابا من قراب سيفه، فإذا فيه:" المؤمنون تكافا دماؤهم وهم يد على من سواهم ويسعى بذمتهم ادناهم الا لا يقتل مؤمن بكافر ولا ذو عهد في عهده، من احدث حدثا فعلى نفسه ومن احدث حدثا او آوى محدثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين"، قال مسدد: عن ابن ابي عروبة، فاخرج كتابا. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمُسَدَّدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَالْأَشْتَرُ إِلَى عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقُلْنَا: هَلْ عَهِدَ إِلَيْكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً؟ قَالَ: لَا إِلَّا مَا فِي كِتَابِي هَذَا، قَالَ مُسَدَّدٌ: قَالَ: فَأَخْرَجَ كِتَابًا، وَقَالَ أَحْمَدُ: كِتَابًا مِنْ قِرَابِ سَيْفِهِ، فَإِذَا فِيهِ:" الْمُؤْمِنُونَ تَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ وَيَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ أَلَا لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ، مَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا فَعَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ"، قَالَ مُسَدَّدٌ: عَنْ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، فَأَخْرَجَ كِتَابًا.
قیس بن عباد سے کہتے ہیں کہ میں اور اشتر دونوں علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ہم نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کوئی خاص بات بتائی ہے جو عام لوگوں کو نہ بتائی ہو؟ وہ بولے: نہیں، سوائے اس چیز کے جو میری اس کتاب میں ہے۔ مسدد کہتے ہیں: پھر انہوں نے ایک کتاب نکالی، احمد کے الفاظ یوں ہیں اپنی تلوار کے غلاف سے ایک کتاب (نکالی) اس میں یہ لکھا تھا: سب مسلمانوں کا خون برابر ہے اور وہ غیروں کے مقابل (باہمی نصرت و معاونت میں) گویا ایک ہاتھ ہیں، اور ان میں کا ایک ادنی بھی ان کے امان کا پاس و لحاظ رکھے گا ۱؎، آگاہ رہو! کہ کوئی مومن کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا، اور نہ ہی کوئی ذمی معاہد جب تک وہ معاہد ہے قتل کیا جائے گا، اور جو شخص کوئی نئی بات نکالے گا تو اس کی ذمے داری اسی کے اوپر ہو گی، اور جو نئی بات نکالے گا، یا نئی بات نکالنے والے کسی شخص (بدعتی) کو پناہ دے گا تو اس پر اللہ کی فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ مسدد کہتے ہیں: ابن ابی عروبہ سے منقول ہے کہ انہوں نے ایک کتاب نکالی۔
وضاحت: ۱؎: یعنی کوئی ادنیٰ مسلمان بھی کسی کافر کو پناہ دے دے تو کوئی مسلمان اسے توڑ نہیں سکتا۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/القسامة 5 (4738)، (تحفة الأشراف: 10257)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/122) (صحیح)»
Narrated Qays ibn Abbad: I and Ashtar went to Ali and said to him: Did the Messenger of Allah ﷺ give you any instruction about anything for which he did not give any instruction to the people in general? He said: No, except what is contained in this document of mine. Musaddad said: He then took out a document. Ahmad said: A document from the sheath of his sword. It contained: The lives of all Muslims are equal; they are one hand against others; the lowliest of them can guarantee their protection. Beware, a Muslim must not be killed for an infidel, nor must one who has been given a covenant be killed while his covenant holds. If anyone introduces an innovation, he will be responsible for it. If anyone introduces an innovation or gives shelter to a man who introduces an innovation (in religion), he is cursed by Allah, by His angels, and by all the people. Musaddad said: Ibn Abu Urubah's version has: He took out a document.
USC-MSA web (English) Reference: Book 40 , Number 4515
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (4738) قتادة والحسن البصري عنعنا وللحديث شواھد صحيحة عند البخاري (111،7300) و مسلم (1370) وغيرهما دون قوله: ”ولا ذو عهد في عھده“ وانظر ضعيف سنن ابن ماجه (2660) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 159
المؤمنون تكافأ دماؤهم هم يد على من سواهم يسعى بذمتهم أدناهم لا يقتل مؤمن بكافر لا ذو عهد في عهده من أحدث حدثا فعلى نفسه من أحدث حدثا آوى محدثا عليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4530
فوائد ومسائل: 1: حضرت علی رضی اللہ کے لئے کوئی خا ص انفرادی وصیت نہیں کی گئی تھی، اس کی کوئی ضرورت تھی نہ اس کا کوئی ثبوت ہی ہے۔ نخلاف اس دعوی کے جس کے روافض مدعی ہیں۔ روافض کا دعوی سراسرغلط اور بے اصل ہے۔
2: کسی مسلمان عربی، عجمی یا کالے گورے مسلمان پر کوئی فضیلت نہیں۔ خون سب کے برابر ہیں، صرف تقوے کی بنا پر فضیلت حاصل ہے، مگر اس کا علم اور فیصلہ اللہ کے پاس محفوظ ہے۔
3: کافر کے مقابلے میں مسلمان کی مدد کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے بشرطیکہ وہ حق پر ہوں۔
4: کسی مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا، البتہ دیت ضروری جائے گی۔
5: دین میں بدعت (نئی ایجاد) کی قطعا کوئی گنجائش نہیں۔ دین ہر اعتبار سے کامل اور مکمل ہے۔ بدعتی آدمی اللہ کی مخلوق میں ملعون ہے۔ ایسے آدمی کو عزت دینا حرام ہے۔ معاملات کی دنیا میں مروت اور رواداری ایک الگ مسئلہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4530