(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، قال: حدثنا محمد بن إسحاق، فحدثني محمد بن جعفر بن الزبير، قال: سمعت زياد بن ضميرة الضمري. ح واخبرنا وهب بن بيان، واحمد بن سعيد الهمداني، قالا: حدثنا ابن وهب، اخبرني عبد الرحمن بن ابي الزناد، عن عبد الرحمن بن الحارث، عن محمد بن جعفر، انه سمع زياد بن سعد بن ضميرة السلمي، وهذا حديث وهب وهو اتم، يحدث عروة بن الزبير، عن ابيه، قال موسى، وجده، وكانا شهدا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حنينا، ثم رجعنا إلى حديث وهب: ان محلم بن جثامة الليثي قتل رجلا من اشجع في الإسلام وذلك اول غير قضى به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتكلم عيينة في قتل الاشجعي لانه من غطفان وتكلم الاقرع بن حابس دون محلم لانه من خندف، فارتفعت الاصوات وكثرت الخصومة واللغط، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عيينة الا تقبل الغير؟ فقال عيينة: لا والله حتى ادخل على نسائه من الحرب والحزن ما ادخل على نسائي، قال: ثم ارتفعت الاصوات وكثرت الخصومة واللغط، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا عيينة الا تقبل الغير؟ فقال عيينة مثل ذلك ايضا، إلى ان قام رجل من بني ليث يقال له مكيتل عليه شكة وفي يده درقة، فقال: يا رسول الله إني لم اجد لما فعل هذا في غرة الإسلام مثلا إلا غنما وردت فرمي اولها فنفر آخرها اسنن اليوم وغير غدا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خمسون في فورنا هذا وخمسون إذا رجعنا إلى المدينة وذلك في بعض اسفاره، ومحلم رجل طويل آدم وهو في طرف الناس، فلم يزالوا حتى تخلص فجلس بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم وعيناه تدمعان، فقال: يا رسول الله إني قد فعلت الذي بلغك وإني اتوب إلى الله تبارك وتعالى فاستغفر الله عز وجل لي يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقتلته بسلاحك في غرة الإسلام! اللهم لا تغفر لمحلم بصوت عال، زاد ابو سلمة: فقام وإنه ليتلقى دموعه بطرف ردائه"، قال ابن إسحاق: فزعم قومه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم استغفر له بعد ذلك، قال ابو داود: قال النضر بن شميل: الغير الدية. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، فَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ زِيَادَ بْنَ ضُمَيْرَةَ الضُّمَرِيَّ. ح وأَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ زِيَادَ بْنَ سَعْدِ بْنِ ضُمَيْرَةَ السُّلَمِيَّ، وَهَذَا حَدِيثُ وَهْبٍ وَهُوَ أَتَمُ، يُحَدِّثُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ مُوسَى، وَجَدِّهِ، وَكَانَا شَهِدَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَى حَدِيثِ وَهْبٍ: أَنْ مُحَلِّمَ بْنَ جَثَّامَةَ اللَّيْثِيَّ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ أَشْجَعَ فِي الْإِسْلَامِ وَذَلِكَ أَوَّلُ غِيَرٍ قَضَى بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَكَلَّمَ عُيَيْنَةُ فِي قَتْلِ الْأَشْجَعِيِّ لِأَنَّهُ مِنْ غَطَفَانَ وَتَكَلَّمَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ دُونَ مُحَلِّمٍ لِأَنَّهُ مِنْ خِنْدِفَ، فَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَكَثُرَتِ الْخُصُومَةُ وَاللَّغَطُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عُيَيْنَةُ أَلَا تَقْبَلُ الْغِيَرَ؟ فَقَالَ عُيَيْنَةُ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى أُدْخِلَ عَلَى نِسَائِهِ مِنَ الْحَرْبِ وَالْحُزْنِ مَا أَدْخَلَ عَلَى نِسَائِي، قَالَ: ثُمَّ ارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَكَثُرَتِ الْخُصُومَةُ وَاللَّغَطُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عُيَيْنَةُ أَلَا تَقْبَلُ الْغِيَرَ؟ فَقَالَ عُيَيْنَةُ مِثْلَ ذَلِكَ أَيْضًا، إِلَى أَنْ قَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي لَيْثٍ يُقَالُ لَهُ مُكَيْتِلٌ عَلَيْهِ شِكَّةٌ وَفِي يَدِهِ دَرِقَةٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَمْ أَجِدْ لِمَا فَعَلَ هَذَا فِي غُرَّةِ الْإِسْلَامِ مَثَلًا إِلَّا غَنَمًا وَرَدَتْ فَرُمِيَ أَوَّلُهَا فَنَفَرَ آخِرُهَا اسْنُنِ الْيَوْمَ وَغَيِّرْ غَدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَمْسُونَ فِي فَوْرِنَا هَذَا وَخَمْسُونَ إِذَا رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ وَذَلِكَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، وَمُحَلِّمٌ رَجُلٌ طَوِيلٌ آدَمُ وَهُوَ فِي طَرَفِ النَّاسِ، فَلَمْ يَزَالُوا حَتَّى تَخَلَّصَ فَجَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَيْنَاهُ تَدْمَعَانِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ الَّذِي بَلَغَكَ وَإِنِّي أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَقَتَلْتَهُ بِسِلَاحِكَ فِي غُرَّةِ الْإِسْلَامِ! اللَّهُمَّ لَا تَغْفِرْ لِمُحَلِّمٍ بِصَوْتٍ عَالٍ، زَادَ أَبُو سَلَمَةَ: فَقَامَ وَإِنَّهُ لَيَتَلَقَّى دُمُوعَهُ بِطَرَفِ رِدَائِهِ"، قَالَ ابْنُ إِسْحَاق: فَزَعَمَ قَوْمُهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَغْفَرَ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ: الْغِيَرُ الدِّيَةُ.
زبیر بن عوام اور ان والد عوام رضی اللہ عنہما (یہ دونوں جنگ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے) سے روایت ہے کہ محلم بن جثامہ لیثی نے اسلام کے زمانے میں قبیلہ اشجع کے ایک شخص کو قتل کر دیا، اور یہی پہلی دیت ہے جس کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، تو عیینہ نے اشجعی کے قتل کے متعلق گفتگو کی اس لیے کہ وہ قبیلہ عطفان سے تھا، اور اقرع بن حابس نے محلم کی جانب سے گفتگو کی اس لیے کہ وہ قبیلہ خندف سے تھا تو آوازیں بلند ہوئیں، اور شور و غل بڑھ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عیینہ! کیا تم دیت قبول نہیں کر سکتے؟“ عیینہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم، اس وقت تک نہیں جب تک میں اس کی عورتوں کو وہی رنج و غم نہ پہنچا دوں جو اس نے میری عورتوں کو پہنچایا ہے، پھر آوازیں بلند ہوئیں اور شور و غل بڑھ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عیینہ! کیا تم دیت قبول نہیں کر سکتے؟“ عیینہ نے پھر اسی طرح کی بات کہی یہاں تک کہ بنی لیث کا ایک شخص کھڑا ہوا جسے مکیتل کہا جاتا تھا، وہ ہتھیار باندھے تھا اور ہاتھ میں سپر لیے ہوئے تھا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! شروع اسلام میں اس نے جو غلطی کی ہے، اسے میں یوں سمجھتا ہوں جیسے چند بکریاں چشمے پر آئیں اور ان پر تیر پھینکے جائیں تو پہلے پہل آنے والیوں کو تیر لگے، اور پچھلی انہیں دیکھ کر ہی بھاگ جائیں، آج ایک طریقہ نکالئے اور کل اسے بدل دیجئیے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پچاس اونٹ ابھی فوراً دے دو، اور پچاس مدینے لوٹ کر دینا“۔ اور یہ واقعہ ایک سفر کے دوران پیش آیا تھا، محلم لمبا گندمی رنگ کا ایک شخص تھا، وہ لوگوں کے کنارے بیٹھا تھا، آخر کار جب وہ چھوٹ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ بیٹھا، اور اس کی آنکھیں اشک بار تھیں اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے گناہ کیا ہے جس کی خبر آپ کو پہنچی ہے، اب میں توبہ کرتا ہوں، آپ اللہ سے میری مغفرت کی دعا فرمائیے، اللہ کے رسول! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ آواز بلند فرمایا: ”کیا تم نے اسے ابتداء اسلام میں اپنے ہتھیار سے قتل کیا ہے، اے اللہ! محلم کو نہ بخشنا“ ابوسلمہ نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ یہ سن کر محلم کھڑا ہوا، وہ اپنی چادر کے کونے سے اپنے آنسو پونچھ رہا تھا، ابن اسحاق کہتے ہیں: محلم کی قوم کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد اس کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نضر بن شمیل کا کہنا ہے کہ «غير» کے معنی دیت کے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الدیات 4 (2625)، (تحفة الأشراف: 3824)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/112، 6/10) (ضعیف)»
Narrated Ziyad ibn Saad ibn Dumayrah as-Sulami: On the authority of his father (Saad) and his grandfather (Dumayrah) (according to Musa's version) who were present in the battle of Hunayn with the Messenger of Allah ﷺ: After the advent of Islam, Muhallam ibn Jaththamah al-Laythi killed a man of Ashja. That was the first blood-money decided by the Messenger of Allah ﷺ (for payment). Uyaynah spoke about the killing of al-Ashjai, for he belonged to Ghatafan, and al-Aqra ibn Habis spoke on behalf of Muhallam, for he belonged to Khunduf. The voices rose high, and the dispute and noise grew. So the Messenger of Allah ﷺ said: Do you not accept blood-money, Uyaynah? Uyaynah then said: No, I swear by Allah, until I cause his women to suffer the same fighting and grief as he caused my women to suffer. Again the voices rose high, and the dispute and noise grew. The Messenger of Allah ﷺ said: Do you not accept the blood-money Uyaynah? Uyaynah gave the same reply as before, and a man of Banu Layth called Mukaytil stood up. He had a weapon and a skin shield in his hand. He said: I do not find in the beginning of Islam any illustration for what he has done except the one that "some sheep came on, and those in the front were shot; hence those in the rear ran away". (The other example is that) "make a law today and change it. " The Messenger of Allah ﷺ said: Fifty (camels) here immediately and fifty when we return to Madina. This happened during some of his journeys. Muhallam was a tall man of dark complexion. He was with the people. They continued (to make effort for him) until he was released. He sat before the Messenger of Allah ﷺ, with his eyes flowing. He said: Messenger of Allah! I have done (the act) of which you have been informed. I repent to Allah, the Exalted, so ask Allah's forgiveness for me. Messenger of Allah! The Messenger of Allah ﷺ then said: Did you kill him with your weapon at the beginning of Islam. O Allah! do not forgive Muhallam. He said these words loudly. Abu Salamah added: He (Muhallam) then got up while he was wiping his tears with the end of his garment. Ibn Ishaq said: His people alleged that the Messenger of Allah ﷺ asked forgiveness for him after that. Abu Dawud said: Al-Nadr bin Shumail said: al-ghiyar means blood-wit.
USC-MSA web (English) Reference: Book 40 , Number 4488
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن أخرجه ابن ماجه (2625 وسنده حسن) زياد بن ضميرة حسن الحديث علي الراجح
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4503
فوائد ومسائل: مذکورہ بالا مثالوں سے اپنے مخاطب کو اپنے مطلب کی بات پر لانے کے لئے برانگیختہ کرنا مطلوب تھا۔ پہلی مثال میں یہ ہے کہ اگر آج اس پہلے قاتل سے قصاصلے لیا جائے تو دوسروں کو عبرت اور نصیحت ہو جائے گی۔ اور کو ئی کسی کو قتل کرنے کی جرات نہیں کرے گا اور اگر قصاص نہ لیا جائے تو دوسری مثال ہے کہ یہ بات حکمت کے خلاف ہو گی کہ آج ایک اصول بنائیں اور کل اسے بدل دیں چاہیے کہ اٹل موقف اپنایا جائے اگر آج آپ نے قصاص نہ لیا اور دیت ہی راضی ہو گئے تو لوگ آئندہ دیت پر راضی نہ ہوں گے قصاص ہی لیا کریں گے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4503