سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: دیتوں کا بیان
Types of Blood-Wit (Kitab Al-Diyat)
3. باب الإِمَامِ يَأْمُرُ بِالْعَفْوِ فِي الدَّمِ
3. باب: امام (حاکم) خون معاف کر دینے کا حکم دے تو کیسا ہے؟
Chapter: The Imam Enjoining A Pardon In The Case Of Bloodshed.
حدیث نمبر: 4502
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن يحيى ابن سعيد، عن ابي امامة بن سهل، قال:" كنا مع عثمان وهو محصور في الدار، وكان في الدار مدخل من دخله سمع كلام من على البلاط، فدخله عثمان فخرج إلينا وهو متغير لونه، فقال: إنهم ليتواعدونني بالقتل آنفا، قال: قلنا: يكفيكهم الله يا امير المؤمنين، قال: ولم يقتلونني؟ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث: كفر بعد إسلام، او زنا بعد إحصان، او قتل نفس بغير نفس"، فوالله ما زنيت في جاهلية ولا في إسلام قط، ولا احببت ان لي بديني بدلا منذ هداني الله، ولا قتلت نفسا، فبم يقتلونني؟"، قال ابو داود: عثمان، وابو بكر رضي الله عنهما تركا الخمر في الجاهلية.
(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى ابْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ، قَالَ:" كُنَّا مَعَ عُثْمَانَ وَهُوَ مَحْصُورٌ فِي الدَّارِ، وَكَانَ فِي الدَّارِ مَدْخَلٌ مَنْ دَخَلَهُ سَمِعَ كَلَامَ مَنْ عَلَى الْبَلَاطِ، فَدَخَلَهُ عُثْمَانُ فَخَرَجَ إِلَيْنَا وَهُوَ مُتَغَيِّرٌ لَوْنُهُ، فَقَالَ: إِنَّهُمْ لَيَتَوَاعَدُونَنِي بِالْقَتْلِ آنِفًا، قَالَ: قُلْنَا: يَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: وَلِمَ يَقْتُلُونَنِي؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: كُفْرٌ بَعْدَ إِسْلَامٍ، أَوْ زِنًا بَعْدَ إِحْصَانٍ، أَوْ قَتْلُ نَفْسٍ بِغَيْرِ نَفْسٍ"، فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا فِي إِسْلَامٍ قَطُّ، وَلَا أَحْبَبْتُ أَنَّ لِي بِدِينِي بَدَلًا مُنْذُ هَدَانِي اللَّهُ، وَلَا قَتَلْتُ نَفْسًا، فَبِمَ يَقْتُلُونَنِي؟"، قَالَ أَبُو دَاوُد: عُثْمَانُ، وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا تَرَكَا الْخَمْرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ.
ابوامامہ بن سہل کہتے ہیں کہ ہم عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، آپ گھر میں محصور تھے، گھر میں داخل ہونے کا ایک راستہ ایسا تھا کہ جو اس میں داخل ہو جاتا وہ باہر سطح زمین پر کھڑے لوگوں کی گفتگو سن سکتا تھا، عثمان اس میں داخل ہوئے اور ہمارے پاس لوٹے تو ان کا رنگ متغیر تھا، کہنے لگے: ان لوگوں نے ابھی ابھی مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی ہے، تو ہم نے عرض کیا: امیر المؤمنین! آپ کی ان سے حفاظت کے لیے اللہ کافی ہے، اس پر انہوں نے کہا: آخر یہ مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: تین باتوں کے بغیر کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں: ایک یہ کہ اسلام لانے کے بعد وہ کفر کا ارتکاب کرے، دوسرے یہ کہ شادی شدہ ہو کر زنا کرے، اور تیسرے یہ کہ ناحق کسی کو قتل کر دے تو اللہ کی قسم! میں نے نہ تو جاہلیت میں، اور نہ اسلام لانے کے بعد کبھی زنا کیا، اور جب سے اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہے میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میرا دین اس کے بجائے کوئی اور ہو، اور نہ ہی میں نے کسی کو قتل کیا ہے، تو آخر کس بنیاد پر مجھے یہ قتل کریں گے؟۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عثمان اور ابوبکر رضی اللہ عنہما نے تو جاہلیت میں بھی شراب سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی تھی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الفتن 1 (2158)، سنن النسائی/المحاربة 6 (4024)، سنن ابن ماجہ/الحدود 1 (2533)، (تحفة الأشراف: 9782)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/61، 62، 65، 70)، دی/ الحدود 2 (2343) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Abu Umamah ibn Sahl: We were with Uthman when he was besieged in the house. There was an entrance to the house. He who entered it heard the speech of those who were in the Bilat. Uthman then entered it. He came out to us, looking pale. He said: They are threatening to kill me now. We said: Allah will be sufficient for you against them, Commander of the Faithful! He asked: Why kill me? I heard the Messenger of Allah ﷺ say: It is not lawful to kill a man who is a Muslim except for one of the three reasons: Kufr (disbelief) after accepting Islam, fornication after marriage, or wrongfully killing someone, for which he may be killed. I swear by Allah, I have not committed fornication before or after the coming of Islam, nor did I ever want another religion for me instead of my religion since Allah gave guidance to me, nor have I killed anyone. So for what reason do you want to kill me? Abu Dawud said: Uthman and Abu Bakr (Allah be pleased with them) abandoned drinking wine in pre-Islamic times.
USC-MSA web (English) Reference: Book 40 , Number 4487


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
أخرجه الترمذي (2158 وسنده صحيح) والنسائي (4024 وسنده صحيح) وابن ماجه (2533 وسنده صحيح)

   جامع الترمذي2158عثمان بن عفانلا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث زنا بعد إحصان ارتداد بعد إسلام قتل نفس بغير حق فقتل به
   سنن أبي داود4502عثمان بن عفانلا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث كفر بعد إسلام زنا بعد إحصان قتل نفس بغير نفس
   سنن ابن ماجه2533عثمان بن عفانلا يحل دم امرئ مسلم إلا في إحدى ثلاث رجل زنى وهو محصن فرجم رجل قتل نفسا بغير نفس رجل ارتد بعد إسلامه
   سنن النسائى الصغرى4024عثمان بن عفانلا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث رجل كفر بعد إسلامه زنى بعد إحصانه قتل نفسا بغير نفس
   سنن النسائى الصغرى4063عثمان بن عفانلا يحل دم امرئ مسلم إلا بثلاث يزني بعد ما أحصن يقتل إنسانا فيقتل يكفر بعد إسلامه فيقتل

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4502 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4502  
فوائد ومسائل:
سیدنا ابو بکر اور سیدنا عثمان رضی اللہ اسلام سے پہلے ہی پاک طینت تھے، اسلام نے ان کی صالحیت کو اور بھی صیقل کردیا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4502   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4024  
´جن گناہوں اور جرائم کی وجہ سے کسی مسلمان کا خون حلال ہو جاتا ہے ان کا بیان۔`
ابوامامہ بن سہل اور عبداللہ بن عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ ہم عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور وہ (اپنے گھر میں) قید تھے۔ ہم جب کسی جگہ سے اندر گھستے تو بلاط ۱؎ والوں کی گفتگو سنتے۔ ایک دن عثمان رضی اللہ عنہ اندر گئے پھر باہر آئے اور بولے: یہ لوگ مجھے قتل کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ہم نے کہا: آپ کے لیے تو اللہ کافی ہے۔ وہ بولے: آخر یہ لوگ مجھے کیوں قتل کرنے کے درپہ ہیں؟ حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4024]
اردو حاشہ:
(1) بلاط مسجد نبوی سے باہر ایک چبوترہ سا بنا ہوا تھا جس پر لوگ عموماً بیٹھتے اور باتیں کرتے تھے تاکہ مسجد نبوی کا تقدس بحال رہے۔ اس حدیث میں بلاط والوں سے مراد وہ فسادی لوگ ہیں جو دوسرے علاقوں سے اکٹھے ہو کر خلافت کو مٹانے آئے تھے۔ آخرکار انہوں نے اپنی دھمکیوں پر عمل کر ہی دیا۔ لعنهم اللہ۔
(2) اس حدیث میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عظیم الشان فضیلت و منقبت کا بیان ہے۔ وہ اس طرح کہ زمانۂ جاہلیت اور زمانۂ اسلام میں ہمیشہ مکارم اخلاق آپ کی فطرت سلیمہ کا جزو لا ینفک رہے۔ آپ ہمیشہ برائی اور بے حیائی سے دور اور کنارہ کش ہی رہے۔
(3) جن لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کو زیادتی اور سرکشی کرتے ہوئے قتل کیا انہوں نے بہت بڑا ظلم کیا کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایسا کوئی جرم ہی نہیں کیا تھا جس کی بنا پر ایک مسلمان کو قتل کرنا جائز ہوتا ہے۔ رضي اللہ تعالیٰ عنه و أرضاہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4024   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2533  
´تین صورتوں کے علاوہ مسلمان کا قتل حرام اور ناجائز ہے۔`
ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ان (بلوائیوں) کو جھانک کر دیکھا، اور انہیں اپنے قتل کی باتیں کرتے سنا تو فرمایا: یہ لوگ مجھے قتل کی دھمکی دے رہے ہیں، آخر یہ میرا قتل کیوں کریں گے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: کسی مسلمان کا قتل تین باتوں میں سے کسی ایک کے بغیر حلال نہیں: ایک ایسا شخص جو شادی شدہ ہو اور زنا کا ارتکاب کرے، تو اسے رجم کیا جائے گا، دوسرا وہ شخص جو کسی مسلمان کو ناحق قتل کر دے، تیسرا وہ شخص جو اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے پھر جائے (مر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2533]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام کا ہے جب مختلف شہروں سے کثیر تعداد میں باغی مدینہ طیبہ آ کرجمع ہوگئے تھے اور وہ حضرت عثمان کو شہید کرنا چاہتے تھے۔
حضرت عثمان آخر تک یہی کوشش کرتے رہے کہ انہیں سمجھا بجھا کر مطمئن کردیا جائے تاکہ وہ بغاوت سے باز آ جائیں اورمدینہ منورہ کی مقدس زمین پرخون ریزی نہ ہو۔
اس موقع پر آپ نے وہ بات فرمائی تھی جو اس روایت میں بیان کی گئی ہے۔

(2)
مسلمانوں کو ناحق قتل کرنا بہت بڑا جرم ہے۔

(3)
مذکورہ بالااسباب کے علاوہ ہر قتل ناحق ہے۔
ان صورتوں میں بھی قتل کرنا عام آدمی کا کام نہیں بلکہ اسلامی حکومت یا شرعی عدالت ہی کسی کی سزائے موت کا فیصلہ کرسکتی ہے۔

(4)
زنا کا جرم سنگین ہے۔
اس کے باوجود اگر مجرم غیرشادی شدہ ہے تو اسے سزائے موت نہیں دی جا سکتی بلکہ سوکوڑے مارنے کی سزا دی جائے اورقاضی مناسب سمجھے تو کوڑوں سزا کے بعد ایک سال کے لیے شہر بدر کر سکتا ہے۔

(5)
شادی شدہ مرد یاعورت زنا کا ارتکاب کرے تو اس کی سزارجم ہے یعنی اسے پتھر مارمار کر ہلاک کر دیا جائے۔

(6)
جو مسلمان اسلام ترک کرکے کوئی دوسرامذہب اختیار کرلے اسے مرتد کہتے ہیں اسکی سزا بھی موت ہے لیکن اگر وہ توبہ کر کے دوبارہ اسلام قبول کرلے تو اسے معاف کردیا جائے گا۔
حضرت معاذ بن جبل یمن میں حضرت ابوموسیٰ اشعری کے پاس گئے تو دیکھا کہ ایک آدمی کو گرفتار کرکے رکھا ہوا ہے۔
وجہ دریافت کرنے پرمعلوم ہوا وہ ایک یہودی تھا۔
جس نے اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ یہودی مذہب اختیار کر لیا تھا۔
حضرت معاذ نے اسے فوری قتل کرنے کا مطالبہ کیا چنانچہ حضرت ابوموسیٰ اشعری نےاسے قتل کرا دیا۔ (صیحح البخاري، استتابة المرتدین والمعاندین وقتالھم، باب حکم المرتد والمرتدة واستتابتھم، حدیث: 2963)
حافظ ابن حجر نے شرح میں مسند احمد کے حوالہ سے یہی واقعہ ذکر کیا ہے۔
اس روایت میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ نےفرمایا:
ہم تقریبا دو مہینے سے اسے اسلام قبول کرنے کا کہہ رہے ہیں---، (فتح الباري، 343/12)

(7)
اس واقعے سے حضرت عثمان کا عظیم مقام اور عصمت وعفت کے لحاظ سے ان کا اعلیٰ وارفع کردار واضح ہوتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2533   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.