براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا سے ملا ان کے ساتھ ایک جھنڈا تھا میں نے ان سے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کر رکھی ہے، اور حکم دیا ہے کہ میں اس کی گردن مار دوں اور اس کا مال لے لوں۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 15534) (صحیح)»
Narrated Al-Bara ibn Azib: I met my uncle who was carrying a standard. I asked him: Where are you going? He said: The Messenger of Allah ﷺ has sent me to a man who has married his father's wife. He has ordered me to cut off his head and take his property.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4442
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (3172) أخرجه النسائي (3334 وسنده صحيح)
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3333
´باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنے کا بیان۔` براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے ماموں سے ملا، تو ان کے پاس جھنڈا تھا۔ تو میں نے اُن سے کہا: کہاں کا ارادہ ہے؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ایسے شخص کی گردن اڑا دینے یا اسے قتل کر دینے کے لیے بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کے انتقال کے بعد اس کی بیوی سے شادی کر لی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3333]
اردو حاشہ: (1) اپنی والدہ سے تو کوئی نکاح نہیں کرسکتا۔ اس سے مراد والد کی منکوحہ (سوتیلی ماں) ہے۔ کوئی جاہل خیال کرسکتا ہے کہ وہ ماں نہیں ہوتی‘ لہٰذا اس سے نکاح ہوسکتا ہے‘ اس لیے صراحتاً نفی فرمائی: ﴿وَلا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ﴾ باپ والا حکم دادا‘ نانا وغیرہ کو بھی حاصل ہے کیونکہ عرفاً وہ بھی باپ ہی ہیں۔ (2)”گردن اتاردوں“ خواہ اس نے جماع کیا ہو یا نہ۔ صرف نکاح کرنے کی یہ سزا ہے۔ (3)”گردن اتاردوں یا قتل کردوں“ ایک ہی بات ہے۔ راوی کو شک ہے کہ ان سے الفاظ بیان فرمائے۔ (4) جھنڈے والے صحابی کا نام حضرت ابوبریدہ بن نیار تھا۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ وَأَرْضَاہُ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3333
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3334
´باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنے کا بیان۔` براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا سے ملا، ان کے پاس ایک جھنڈا تھا میں نے ان سے کہا: آپ کہاں جا رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کے پاس بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کر لی ہے۔ مجھے آپ نے حکم دیا ہے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں اور اس کا مال اپنے قبضہ میں کر لوں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3334]
اردو حاشہ: (1)”چچا سابقہ روایت میں ’اموں“ کہا گیا ہے ایک رشتہ رضاعی ہو‘ دوسرا نسبی۔ اس دور میں رضاعی رشتے عام تھے کیونکہ دیگر عورتوں سے رضاعت کا بہت رواج تھا۔ (2)”جھنڈا“ یعنی رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے۔ (3)”اس کا مال چھین لوں“ گویا باپ کی منکوحہ سے نکاح ارتداد کے جرم کے برابر ہے‘ اس لیے اس کا مال بیت المال میں جمع ہوگا۔ جس طرح مرتد قتل کیا جاتا ہے اور اس کا مال اس کے ورثاء کو دینے کی بجائے بیت المال میں جمع ہوتا ہے۔ [لا يَرِثُ المُسْلِمُ الكافِرَ، وَلا يَرِثُ الكافِرُ المُسْلِمَ ]”مسلمان کافر کا وارث ہے نہ کافرمسلمان کا۔“(صحیح البخاری‘ الفرائض‘ حدیث: 6764‘ وصحیح مسلم‘ الفرائض‘ حدیث: 1614) (4) شریعت مطہرہ نے ہر ایک کے حقوق کی کماحقہ حفاظت کی ہے۔ (5) معلوم ہوتا ہے کہ ضبط مال کے ساتھ یا مالی جرمانے کے ساتھ بھی سزا دی جاسکتی ہے۔ (6) حاکم وقت سنگین جرم کی بنا پر تعذیراً قتل کی سزا دے سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3334
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2607
´جو کوئی باپ کے مرنے کے بعد اس کی بیوی سے شادی کرے اس کے حکم کا بیان۔` براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے ماموں کا گزر میرے پاس سے ہوا (راوی حدیث ہشیم نے ان کے ماموں کا نام حارث بن عمرو بتایا) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک جھنڈا باندھ دیا تھا، میں نے ان سے پوچھا: کہاں کا قصد ہے؟ انہوں نے عرض کیا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے پاس روانہ کیا ہے جس نے اپنے باپ کے مرنے کے بعد اس کی بیوی (یعنی اپنی سوتیلی ماں) سے شادی کر لی ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2607]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) کسی محرم خاتون سے نکاح کرنا بڑا جرم ہے۔
(2) اس جرم کی سزایہ ہےمجرم کوقتل کردیا جائے۔
(3) حرم نکاح کی سزا زنا والی (رجم) نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2607