سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
کتاب سنن نسائي تفصیلات

سنن نسائي
کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
The Book of Marriage
58. بَابُ : نِكَاحِ مَا نَكَحَ الآبَاءُ
58. باب: باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنے کا بیان۔
Chapter: Marrying Those Whom One's Father Married
حدیث نمبر: 3333
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا احمد بن عثمان بن حكيم، قال: حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا الحسن بن صالح، عن السدي، عن عدي بن ثابت، عن البراء، قال: لقيت خالي ومعه الراية، فقلت اين تريد؟ قال:" ارسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى رجل تزوج امراة ابيه من بعده ان اضرب عنقه او اقتله".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ السُّدِّيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: لَقِيتُ خَالِي وَمَعَهُ الرَّايَةُ، فقلت أين تريد؟ قَالَ:" أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةَ أَبِيهِ مِنْ بَعْدِهِ أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَهُ أَوْ أَقْتُلَهُ".
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے ماموں سے ملا، تو ان کے پاس جھنڈا تھا۔ تو میں نے اُن سے کہا: کہاں کا ارادہ ہے؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ایسے شخص کی گردن اڑا دینے یا اسے قتل کر دینے کے لیے بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کے انتقال کے بعد اس کی بیوی سے شادی کر لی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحدود 27 (4456)، سنن الترمذی/الأحکام 25 (1362)، سنن ابن ماجہ/الحدود 35 (2607)، (تحفة الأشراف: 15534)، مسند احمد (4/292، 295، 297)، سنن الدارمی/النکاح 43 (2285) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: راوی (براء) کو شک ہو گیا ہے کہ ماموں نے «أن أضرب عنقہ» میں اس کی گردن مار دوں کہا یا «أقتلہ» میں اسے قتل کر دوں کہا، مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   سنن أبي داود4457براء بن عازبأمرني أن أضرب عنقه وآخذ ماله
   سنن ابن ماجه2607براء بن عازبأمرني أن أضرب عنقه
   سنن النسائى الصغرى3333براء بن عازبأضرب عنقه أو أقتله
   سنن النسائى الصغرى3334براء بن عازبأضرب عنقه وآخذ ماله
سنن نسائی کی حدیث نمبر 3333 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3333  
اردو حاشہ:
(1) اپنی والدہ سے تو کوئی نکاح نہیں کرسکتا۔ اس سے مراد والد کی منکوحہ (سوتیلی ماں) ہے۔ کوئی جاہل خیال کرسکتا ہے کہ وہ ماں نہیں ہوتی‘ لہٰذا اس سے نکاح ہوسکتا ہے‘ اس لیے صراحتاً نفی فرمائی: ﴿وَلا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ﴾ باپ والا حکم دادا‘ نانا وغیرہ کو بھی حاصل ہے کیونکہ عرفاً وہ بھی باپ ہی ہیں۔
(2) گردن اتاردوں خواہ اس نے جماع کیا ہو یا نہ۔ صرف نکاح کرنے کی یہ سزا ہے۔
(3) گردن اتاردوں یا قتل کردوں ایک ہی بات ہے۔ راوی کو شک ہے کہ ان سے الفاظ بیان فرمائے۔
(4) جھنڈے والے صحابی کا نام حضرت ابوبریدہ بن نیار تھا۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ وَأَرْضَاہُ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3333   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3334  
´باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنے کا بیان۔`
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا سے ملا، ان کے پاس ایک جھنڈا تھا میں نے ان سے کہا: آپ کہاں جا رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کے پاس بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کر لی ہے۔ مجھے آپ نے حکم دیا ہے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں اور اس کا مال اپنے قبضہ میں کر لوں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3334]
اردو حاشہ:
(1) چچا سابقہ روایت میں ’اموں کہا گیا ہے ایک رشتہ رضاعی ہو‘ دوسرا نسبی۔ اس دور میں رضاعی رشتے عام تھے کیونکہ دیگر عورتوں سے رضاعت کا بہت رواج تھا۔
(2) جھنڈا یعنی رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے۔
(3) اس کا مال چھین لوں گویا باپ کی منکوحہ سے نکاح ارتداد کے جرم کے برابر ہے‘ اس لیے اس کا مال بیت المال میں جمع ہوگا۔ جس طرح مرتد قتل کیا جاتا ہے اور اس کا مال اس کے ورثاء کو دینے کی بجائے بیت المال میں جمع ہوتا ہے۔ [لا يَرِثُ المُسْلِمُ الكافِرَ، وَلا يَرِثُ الكافِرُ المُسْلِمَ ] مسلمان کافر کا وارث ہے نہ کافرمسلمان کا۔ (صحیح البخاری‘ الفرائض‘ حدیث: 6764‘ وصحیح مسلم‘ الفرائض‘ حدیث: 1614)
(4) شریعت مطہرہ نے ہر ایک کے حقوق کی کماحقہ حفاظت کی ہے۔
(5) معلوم ہوتا ہے کہ ضبط مال کے ساتھ یا مالی جرمانے کے ساتھ بھی سزا دی جاسکتی ہے۔
(6) حاکم وقت سنگین جرم کی بنا پر تعذیراً قتل کی سزا دے سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3334   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4457  
´محرم سے زنا کرنے والے کے حکم کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا سے ملا ان کے ساتھ ایک جھنڈا تھا میں نے ان سے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کر رکھی ہے، اور حکم دیا ہے کہ میں اس کی گردن مار دوں اور اس کا مال لے لوں۔ [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4457]
فوائد ومسائل:
جس نے جانتے بوجھتے بغیر کسی اشتباہ کے اپنی کسی محرم سےنکاح کیا ہو یا بدکاری کی ہو تواس کی حد قتل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4457   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2607  
´جو کوئی باپ کے مرنے کے بعد اس کی بیوی سے شادی کرے اس کے حکم کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے ماموں کا گزر میرے پاس سے ہوا (راوی حدیث ہشیم نے ان کے ماموں کا نام حارث بن عمرو بتایا) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک جھنڈا باندھ دیا تھا، میں نے ان سے پوچھا: کہاں کا قصد ہے؟ انہوں نے عرض کیا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے پاس روانہ کیا ہے جس نے اپنے باپ کے مرنے کے بعد اس کی بیوی (یعنی اپنی سوتیلی ماں) سے شادی کر لی ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2607]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کسی محرم خاتون سے نکاح کرنا بڑا جرم ہے۔

(2)
اس جرم کی سزایہ ہےمجرم کوقتل کردیا جائے۔

(3)
حرم نکاح کی سزا زنا والی (رجم)
نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2607   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.