(مقطوع) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا ابو شهاب، عن سليمان التيمي، عن ابي مجلز في قوله:" ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم سورة النساء آية 93، قال: هي جزاؤه فإن شاء الله ان يتجاوز عنه فعل". (مقطوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ فِي قَوْلِهِ:" وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ سورة النساء آية 93، قَالَ: هِيَ جَزَاؤُهُ فَإِنْ شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَتَجَاوَزَ عَنْهُ فَعَلَ".
ابومجلز سے اللہ تعالیٰ کے قول «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم» کے متعلق مروی ہے کہ ایسے شخص کا بدلہ تو یہی ہے لیکن اگر اللہ اسے معاف کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4276
فوائد ومسائل: قاتل عمد کے بارے میں وارد شدہ آیات و احادیث کی روشنی میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ اور کئی علماء کہتے ہیں کہ اس کی توبہ قبول نہیں اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ تاہم سورۃ فرقان اور دیگر آیات توبہ عام ہیں اس لیئے یہ آدمی بھی اگر اخلاص سے توبہ کرے تو قبو لیت کی امید ہے اور پہلی بات تب ہے جب وہ بغیر توبہ کیےمر جائے اور اللہ عزوجل نے معاف نہ فرمایا تو۔ اور خلود سے مراد یہاں لمبی مدت ہے ہمیشہ ہمیشہ نہیں۔ کیونکہ یہ سزا صرف مشرکین اور کافروں کے لیئے مخصوس ہے۔ ارشادِ باری تعا لٰی ہے اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں فرماتا کہ اس کے ساتھ شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ معاف کرے گا جس کے لیئے چاہے گا۔ اور صحیح حدیث ہے کہ ایک اسرائیلی نے سو آدمی قتل کر دیئے۔ تو ایک عالم نے کہا: کون ہے جو تمھارے اور تمھاری توبہ کے درمیان حائل ہو سکے۔ ۔ ۔ الخ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3470، وصحیح مسلم)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4276