(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا عيسى بن يونس، حدثنا المغيرة بن زياد، حدثنا عبد الله ابو عمر مولى اسماء بنت ابي بكر، قال: رايت ابن عمر في السوق اشترى ثوبا شاميا فراى فيه خيطا احمر، فرده فاتيت اسماء فذكرت ذلك لها، فقالت" يا جارية ناوليني جبة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخرجت جبة طيالسة مكفوفة الجيب والكمين والفرجين بالديباج". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَبُو عُمَرَ مَوْلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ فِي السُّوقِ اشْتَرَى ثَوْبًا شَأْمِيًّا فَرَأَى فِيهِ خَيْطًا أَحْمَرَ، فَرَدَّهُ فَأَتَيْتُ أَسْمَاءَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهَا، فَقَالَتْ" يَا جَارِيَةُ نَاوِلِينِي جُبَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْرَجَتْ جُبَّةَ طَيَالِسَةَ مَكْفُوفَةَ الْجَيْبِ وَالْكُمَّيْنِ وَالْفَرْجَيْنِ بِالدِّيبَاجِ".
عبداللہ ابوعمر مولی اسماء بنت ابی بکر کا بیان ہے میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو بازار میں ایک شامی کپڑا خریدتے دیکھا انہوں نے اس میں ایک سرخ دھاگہ دیکھا تو اسے واپس کر دیا تو میں اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور ان سے اس کا ذکر کیا تو وہ (اپنی خادمہ سے) بولیں بیٹی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ مجھے لا دے، تو وہ نکال کر لائیں وہ ایک طیالسی ۱؎ جبہ تھا جس کے گریبان اور دونوں آستینوں اور آگے اور پیچھے ریشم ٹکا ہوا تھا۔
وضاحت: ۱؎: ایک اونی منقش کپڑا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللباس 2 (2069)، (تحفة الأشراف: 15721)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/اللباس 18 (3594)، مسند احمد (6/348، 353، 354، 355) (صحیح)»
Narrated Asma: Abdullah Abu Umar, client of Asma, daughter of Abu Bakr, said: I saw Ibn Umar buying a Syrian garment in the market. When he saw that it had red warp, he returned it. I then came to Asma and mentioned it to her. She said: Bring me, slave-girl, the mantle of the Messenger of Allah ﷺ. She brought out a mantle of a course ornamented cloth, with its collar, sleeves, front, and back were hemmed with brocade.
USC-MSA web (English) Reference: Book 33 , Number 4043
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن أخرجه ابن ماجه (3594 وسنده حسن) وأصله عند مسلم (2069)
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 424
´لباس کا بیان` سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک چوغا نکالا جس کی آستینوں، گریبان اور چاک پر دبیز ریشم کا حاشیہ تھا۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور اس کی اصل مسلم میں ہے۔ مسلم نے اتنا اضافہ نقل کیا ہے کہ وہ جبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی تحویل میں تھا کہ وہ وفات پا گئیں تو میں نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے زیب تن فرمایا کرتے تھے اور ہم اسے دھو کر مریضوں کو پلاتے تھے اور شفاء طلب کرتے تھے۔ اور بخاری نے الادب المفرد میں یہ اضافہ کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے وفود کی آمد پر اور نماز جمعہ کے لیے پہنتے تھے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 424»
تخریج: «أخرجه أبوداود، اللباس، باب الرخصة في العلم وخيط الحرير، حديث:4054، وأصله في صحيح مسلم، اللباس والزينة، حديث:2069، والأدب المفرد للبخاري، حديث:348.»
تشریح: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سربراہ مملکت‘ امیر اور صاحب منصب و مرتبہ خطیب و امام اور دیگر معزز لوگوں کے لیے وفود کی آمد اور جمعہ و جماعت اور دیگر خاص مواقع کے لیے عام معمول سے ہٹ کر اچھا لباس رکھنا جائز ہے۔ عمدہ‘ اچھا اور صاف ستھرا لباس زیب تن کر کے باہر نکلنا چاہیے بشرطیکہ حدود شرعیہ سے تجاوز نہ ہو۔ فخر و ریا‘کبر و نخوت اور شان نمائی سے بچا جائے اور ممنوع لباس سے پرہیز و اجتناب کیا جائے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 424
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2819
´جنگ میں حریر و دیبا (ریشمی کپڑوں) کے پہننے کا بیان۔` اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ریشم کی گھنڈیاں لگا ہوا جبہ نکالا اور کہنے لگیں: دشمن سے مقابلہ کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہنتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2819]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے، تاہم صحیح روایت سے ثابت ہے کہ مردوں کے لیے خالص ریشم کا لباس پہننا حرام ہے۔ (صحيح مسلم، اللباس والزينة، باب تحريم لبس الحرير وغير ذلك لفرجال حديث: 2-68) البتہ کپڑوں کے کناروں، مثلاً: دامن اور گریبان وغیرہ پر لگانا جائز ہے اوراس کی زیادہ سے زیادہ حد چار انگلیوں کے برابر ہے جیسا کہ اگلی حدیث میں صراحت موجود ہے۔ واللہ اعلم-
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2819
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3594
´کپڑے میں ریشمی گوٹ لگانے کی رخصت کا بیان۔` اسماء رضی اللہ عنہا کے غلام ابوعمر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ انہوں نے ایک عمامہ خریدا جس میں گوٹے بنے تھے، پھر قینچی منگا کر انہیں کتر دیا ۱؎، میں اسماء رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اس کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے کہا: تعجب ہے عبداللہ پر، (ایک اپنی خادمہ کو پکار کر کہا:) اے لڑکی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ لے آ، چنانچہ وہ ایک ایسا جبہ لے کر آئی جس کی دونوں آستینوں، گریبان اور کلیوں کے دامن پر ریشمی گوٹے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3594]
اردو حاشہ: فوائد مسائل:
(1) نشان کا مطلب یہ ہے کہ اس کے کنارے پر ریشم کے دھاگے سے کڑھائی کی ہوئی تھی۔ حضرت ابن عمر نے اتنا کنار ہ کاٹ دیا۔
(2) ایک بڑا عالم بھی کسی مسئلے میں غلطی کر سکتا ہے۔
(3) نبی اکرم ﷺ کا قول و عمل ہر عالم کے فتوے پر راجح ہے۔
(4) مرد کے کپڑے پر اگر تھوڑا سا ریشم لگا ہوا ہو تو جائز ہے خواہ وہ کڑھائی کی صورت میں ہو یا ریشمی کپڑے کے ٹکڑے کی صورت میں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3594