انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم ایک گھر میں تھے تو اس میں ہمارے لوگوں کی تعداد بھی زیادہ تھی اور ہمارے پاس مال بھی زیادہ رہتا تھا پھر ہم ایک دوسرے گھر میں آ گئے تو اس میں ہماری تعداد بھی کم ہو گئی اور ہمارا مال بھی گھٹ گیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو، مذموم حالت میں ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: اس گھر کو چھوڑ دینے کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے دیا کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ گھر ہی کو مؤثر سمجھنے لگ جائیں اور شرک میں پڑ جائیں۔
Narrated Anas ibn Malik: A man said: Messenger of Allah! we were in an abode in which our numbers and our goods were many and changed to an abode in which our numbers and our goods became few. The Messenger of Allah ﷺ said: Leave it, for it is reprehensible.
USC-MSA web (English) Reference: Book 29 , Number 3913
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عكرمة بن عمار مدلس وعنعن بل صرح بالسماع عند البزار (البحر الزخار 79/13 ح6427) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 140
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3924
فوائد ومسائل: رسول اللہ ﷺ نے انھیں یہ گھر چھوڑنے کا حکم اس لیئے دیا کہ تجربے سے اس گھر کا بے برکت ہونا ثابت ہوگیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی اس قسم کی صورت سامنے آئے، تو وہاں اس حکمِ نبوی کے مطابق عمل کرلینا بہتر ہے۔ اور بعض شارحین نے کہا ہے کہ نبی ﷺ نےانہیں گھر بدلنے کا حکم اس لیئے دیا تھا کہ وہ اس وہم کا شکار نہ ہوں کہ اُنھیں یہ نقصان اس گھر کی وجہ سے پہنچا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3924