سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: کھانے کے متعلق احکام و مسائل
Foods (Kitab Al-Atimah)
44. باب الإِقْرَانِ فِي التَّمْرِ عِنْدَ الأَكْلِ
44. باب: دو دو تین تین کھجوریں ایک ساتھ کھانے کا بیان۔
Chapter: Taking two dates at a time when eating.
حدیث نمبر: 3834
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا واصل بن عبد الاعلى، حدثنا ابن فضيل، عن ابي إسحاق، عن جبلة بن سحيم، عن ابن عمر، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الإقران، إلا ان تستاذن اصحابك".
(مرفوع) حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ جَبَلَةَ بْنِ سُحَيْمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْإِقْرَانِ، إِلَّا أَنْ تَسْتَأْذِنَ أَصْحَابَكَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی کھجوریں ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع فرمایا الا یہ کہ تم اپنے ساتھیوں سے اجازت لے لو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الشرکة 4 (2490)، صحیح مسلم/الأشربة 25 (2045)، سنن الترمذی/الأطعمة 16 (1814)، سنن ابن ماجہ/الأطعمة 41 (3331)، (تحفة الأشراف: 6667)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/7، 44، 46، 60، 74، 81، 103، 131)، سنن الدارمی/الأطعمة 25 (2103) (صحیح)» ‏‏‏‏

Ibn Umar said: The Messenger of Allah ﷺ prohibited anyone taking two dates together with the exception that you ask permission from your companions.
USC-MSA web (English) Reference: Book 27 , Number 3825


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
رواه البخاري (5446) ومسلم (2045)

   صحيح البخاري2490عبد الله بن عمرعن الإقران إلا أن يستأذن الرجل منكم أخاه
   صحيح البخاري5446عبد الله بن عمرالقران ثم يقول إلا أن يستأذن الرجل أخاه
   صحيح البخاري2455عبد الله بن عمرعن الإقران إلا أن يستأذن الرجل منكم أخاه
   صحيح مسلم5333عبد الله بن عمرعن الإقران إلا أن يستأذن الرجل أخاه
   سنن أبي داود3834عبد الله بن عمرعن الإقران إلا أن تستأذن أصحابك

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3834 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3834  
فوائد ومسائل:
یہ ارشاد آداب مجلس اورآداب طعام سے متعلق ہے۔
کہ جب اجتماعی طور پر بیٹھے ہوئے کھانا یا کھجوریں وغیرہ کھا رہے ہوں۔
تو انسان کو اپنے شرف اور دوسروں کے حقوق کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3834   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5333  
جبلہ بن سحیم بیان کرتے ہیں، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہمیں کھجوریں دیتے تھے، کیونکہ لوگ ان دنوں (قحط سالی کی وجہ سے) ضرورت مند تھے اور ہم کھا رہے تھے تو ہمارے پاس سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما گزرتے اور فرماتے: ملا کر نہ کھاؤ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھیوں کی اجازت کے بغیر ملانے سے منع فرمایا ہے، شعبہ کہتے ہیں: اجازت لینے کی بات، میرے خیال میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بات ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5333]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے اگر کھانا وافر نہ ہو،
جسے لوگ کھل کر اسیر ہو کر کھا سکیں تو پھر اپنے دوسرے ساتھیوں کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے،
یہ نہیں ہے کہ اپنے ساتھیوں سے بے نیاز ہو کر اپنا پیٹ ہی بھرنے کی فکر کرے اور دوسروں کا احساس نہ ہو،
جس طرح آج کل عام طور پر دعوتوں میں دیکھا جاتا ہے کہ ہر فرد کھانے پر اس طرح ٹوٹ پڑتا ہے کہ چھوٹے بڑے کا لحاظ بھی نہیں رہتا اور اپنے لیے بہتر سے بہتر چیز کو انتخاب کرتا ہے اور دوسروں کے لیے کم تر چیز چھوڑتا ہے اور ہر فرد حرص کا بندہ نظر آتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5333   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2455  
2455. حضرت جبلہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ اہل عراق کے ہاں ایک شہر میں تھے کہ ہمیں قحط سالی نے آلیا تو حضرت ابن زبیر ؓ ہمیں کھجور کھلایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہمارے پاس سے گزرتے تو فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو دو کھجوریں ایک بار اٹھا کر کھانے سے منع کیاہے۔ ہاں، تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے اجازت لے لے تو جائز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2455]
حدیث حاشیہ:
ظاہر یہ کے نزدیک یہ نہی تحریمی ہے۔
دوسرے علماءکے نزدیک تنزیہی ہے۔
اور وجہ ممانعت کی ظاہر ہے کہ دوسرے کا حق تلف کرنا ہے اور اس سے حرص اور طمع معلوم ہوتی ہے۔
نووی نے کہا اگر کھجور مشترک ہو تو دوسرے شریکوں کی بن اجازت ایسا کرنا حرام ہے ورنہ مکروہ ہے۔
حافظ نے کہا اس حدیث سے اس شخص کا مذہب قوی ہوتا ہے جس نے مجہول کا ہبہ جائز رکھا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2455   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5446  
5446. سیدنا جبلہ بن سحیم سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہمیں ایک سال سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ قحط کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے راشن کے طور پر ہمیں کھجوریں دیں۔ جب کھجوریں کھا رہے ہوتے اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہمارے پاس گزرتے تو کہتے: دو کھجوریں ایک ساتھ ملا کر نہ کھاؤ کیونکہ نبی ﷺ نے دو کھجوریں ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع کیا ہے پھر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے مگر اس صورت میں کہ کھانے والا اپنے ساتھی سے اجازت لے لے۔ شعبہ نے کہا کہ حدیث میں اجازت والا ٹکڑا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے [صحيح بخاري، حديث نمبر:5446]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کے الفاظ نہیں ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5446   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2455  
2455. حضرت جبلہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ اہل عراق کے ہاں ایک شہر میں تھے کہ ہمیں قحط سالی نے آلیا تو حضرت ابن زبیر ؓ ہمیں کھجور کھلایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہمارے پاس سے گزرتے تو فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو دو کھجوریں ایک بار اٹھا کر کھانے سے منع کیاہے۔ ہاں، تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے اجازت لے لے تو جائز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2455]
حدیث حاشیہ:
اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے حرص اور لالچ کی نشاندہی ہوتی ہے جو مسلمان کی شان کے خلاف ہے، نیز ایسا کرنا دوسروں کے حقوق تلف کرنے کے مترادف ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو مظالم میں اسی لیے بیان کیا ہے۔
اگر دوسرے شرکاء اس کی اجازت دے دیں اور اپنا حق چھوڑ دیں تو ایسا کرنا جائز ہے، نیز اگر کھجوریں کسی کی ذاتی ہیں تو انہیں مٹھی بھر کر بھی کھا سکتا ہے، لیکن حصے داری کی صورت میں ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ اس میں دوسروں کی حق تلفی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2455   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2490  
2490. حضرت جبلہ بن سحیم ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک دفعہ مدینہ طیبہ میں قحط سالی سے دوچار ہوئے توا بن زبیر ؓ ہمیں کھانے کے لیے کھجوریں دیاکرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہمارے پاس سے گزرتے تو فرماتے: کھجوریں ایک ساتھ ملاکر نہ کھاؤ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ملا کر کھانے سے منع کیا ہے الا یہ کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے اجازت حاصل کرلے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2490]
حدیث حاشیہ:
کھانا کھانے میں لوگوں کے درمیان فرق ہوتا ہے جسے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
بعض جلدی جلدی کھاتے ہیں اور زیادہ کھانے کے عادی ہوتے ہیں اور کچھ کھانے میں سست رفتار ہوتے ہیں اور تھوڑا کھاتے ہیں۔
کھانے میں اس فرق کا اعتبار نہیں ہوتا۔
چونکہ دو، دو کھجوریں ملا کر کھانا عام تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔
اگر اس کے ساتھی اجازت دے دیں تو جائز ہے کیونکہ جن لوگوں کے سامنے کھجوریں رکھی گئی ہیں وہ سب کھانے میں برابر شریک ہیں۔
اگر کوئی دو دو اکٹھی کھائے گا تو ایسا کرنا جائز نہ ہو گا اور یہ آداب طعام کے بھی منافی ہے، مگر یہ مساوات واجب نہیں۔
اور حدیث میں نہی تنزیہی ہے۔
ویسے بھی مجلس میں یہ انداز اختیار کرنا انسان کے غیر مہذب ہونے کی علامت ہے۔
اسلام نے تہذیب و وقار کو برقرار رکھنے کی بہت تلقین کی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2490   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5446  
5446. سیدنا جبلہ بن سحیم سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہمیں ایک سال سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ قحط کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے راشن کے طور پر ہمیں کھجوریں دیں۔ جب کھجوریں کھا رہے ہوتے اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہمارے پاس گزرتے تو کہتے: دو کھجوریں ایک ساتھ ملا کر نہ کھاؤ کیونکہ نبی ﷺ نے دو کھجوریں ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع کیا ہے پھر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے مگر اس صورت میں کہ کھانے والا اپنے ساتھی سے اجازت لے لے۔ شعبہ نے کہا کہ حدیث میں اجازت والا ٹکڑا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے [صحيح بخاري، حديث نمبر:5446]
حدیث حاشیہ:
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک دسترخوان پر چند ساتھی کھجوریں کھائیں تو ایک ایک کھجور کھائیں، دو، دو یا تین تین ایک ساتھ ملا کر نہ کھائیں۔
اگر ساتھیوں سے اجازت حاصل کر لی جائے تو پھر کوئی حرج نہیں۔
ان کی اجازت کے بغیر دو، دو کھجوریں ملا کر ایک ساتھ کھانا جائز نہیں۔
اگر قرائن سے معلوم ہو جائے کہ وہ اس طرح کھانے کو برا محسوس نہیں کریں گے تو جائز ہے۔
اگر کوئی اکیلا کھا رہا ہے تو اسے اجازت ہے جس طرح چاہے کھا سکتا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5446   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.