Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ
کتاب: طہارت کے مسائل
140. باب فِي طُهُورِ الأَرْضِ إِذَا يَبِسَتْ
باب: زمین خشک ہو کر پاک ہو جاتی ہے۔
حدیث نمبر: 382
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ:" كُنْتُ أَبِيتُ فِي الْمَسْجِدِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُنْتُ فَتًى شَابًّا عَزَبًا، وَكَانَتْ الْكِلَابُ تَبُولُ وَتُقْبِلُ وَتُدْبِرُ فِي الْمَسْجِدِ، فَلَمْ يَكُونُوا يَرُشُّونَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رات کو مسجد میں سوتا تھا، میں ایک نوجوان کنوارا (غیر شادی شدہ) تھا، اور کتے مسجد میں آتے جاتے اور پیشاب کرتے، کوئی اس پر پانی نہ بہاتا تھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الوضوء 33 (174)، تعلیقًا (تحفة الأشراف: 6704)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/71) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زمین میں اگر پیشاب وغیرہ پڑ جائے پھر وہ زمین خشک ہو جائے تو وہ پاک ہو جاتی ہے، نیز مسجد میں سونا درست اور جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (174)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 382 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 382  
382۔ اردو حاشیہ:
➊ مسجد عبادت گاہ ہے اس کا مسلمانوں کے رفاہی امور میں استعمال جائز ہے، مگر لازم ہے کہ اس کے آداب کا خاص خیال اور اہتمام کیا جائے۔
➋ جب زمین خشک ہو جائے اور نجاست ظاہر نہ ہو تو زمین پاک شمار ہوتی ہے۔
➌ نوجوانوں کو مسجد میں سونے سے اس وجہ سے روکنا کہ انہیں احتلام ہو جاتا ہے، شرعاً اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 382   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت الحديث صحيح بخاري 174  
´کتے کے پیشاب کے ناپاک ہونے پر اتفاق`
«. . . كَانَتِ الْكِلَابُ تَبُولُ وَتُقْبِلُ وَتُدْبِرُ فِي الْمَسْجِدِ فِي زَمَانِ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَكُونُوا يَرُشُّونَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ..»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کتے مسجد میں آتے جاتے تھے لیکن لوگ ان جگہوں پر پانی نہیں چھڑکتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 174]
فقہ الحدیث
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں: کسی طرح یہ امر یقین کرنے کے قابل نہیں ہے کہ مسجد نبوی میں ہمیشہ کتا آ جایا کرتا، نہ تو کتے کے آنے کا انسداد کیا جائے اور نہ اس جگہ پانی چھینٹا جائے کہ پاک ہو جائے .....اور طرہ یہ کہ امام بخاری نے اس حدیث سے یہ اجتہاد فرمایا کہ کتے کا پیشاب پاک ہے!۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما کی دوسری روایت:
«كنت أبيت فى المسجد و كانت الكلاب.....الخ» ۱؎
سے معلوم ہوتا ہے اور یہ ابتدائے دور مدینہ کا واقعہ ہے، جبکہ مسجد کی تکریم و تطہیر کا حکم نہیں ہوا تھا،

جیسا کہ فتح الباری میں ہے:
«إن ذلك كان فى ابتداءالحال،ثم وردالأمر بتكريم المساجد وتطهيرها،وجعل الأبواب عليها» (14/1) ۲؎
یہ ابتداءِ وقت کا واقعہ ہے، پھر اس کے بعد مسجد میں دروازہ لگانے اور اس کی عزت اور پاک کرنے کاحکم صادر ہو گیا۔‏‏‏‏

امید ہے کہ اب تو معترضین کو کتوں کے مسجد میں آ جانے اور اس کے عدم انسداد کی وجہ بخوبی معلوم ہو گئی ہو گی۔ ہاں اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک کتوں کے پیشاب کے پاک ہونے کی دلیل سمجھنا کم فہمی ہے، بحالیکہ کہ حدیثِ مذکور میں کہیں پیشاب کا ذکر بھی نہیں ہے، اسی لئے تو حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں صاف لکھ دیا ہے:
«لا حجة فيه لمن استدل به على طهارة الكلاب، للاتفاق على نجاسة بولها» (139/1) ۳؎
یعنی کتے کے پیشاب کے ناپاک ہونے پر اتفاق ہے، اس میں کتے کی طہارت کی دلیل بھی نہیں ہے۔‏‏‏‏

چہ جائیکہ اس کے بول کی طہارت ثابت ہو؟ ہاں اگر آپ فرما دیں کہ دیگر روایات مثلاً ابوداود وغیرہ میں «تبول» کا لفظ بھی آیا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کا اعتراض صحیح بخاری کی روایت پر ہے، اور اس میں یہ لفظ ندارد ہے۔ ۴؎ چونکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ثابت نہیں ہوا، اس لیے نہیں لائے، اور جن روایتوں میں آیا بھی ہے اس کی «خارج المسجد» محذوف مان کر تاویل کی گئی ہے۔ ۳؎ یعنی وہ مسجد کے باہر پیشاب کرتے تھے، کیونکہ اگر مسجد میں پیشاب کرتے تو ضرور پانی بہایا جاتا، جب ایک اعرابی نے مسجد نبوی میں پیشاب کر دیا، تو اس پر پانی بہایا گیا، تو کتا جس کا پیشاب باتفاق ناپاک ہے، وہ مسجد میں پیشاب کرتا اور پانی نہ بہایا جاتا، ایں چہ معنی؟

یہ اس امر پر صاف قرینہ ہے کہ وہ مسجد کے باہر بول کرتے تھے اور پھر تو رفتہ رفتہ جب اللہ تعالٰی نے اسلام کو عروج بخشا، ممالک فتح ہوئے، تو مسجد نبوی شاندار بن گئی، دیواریں بھی درست ہو گئیں، منبر بھی تیار ہو گیا، دروازے بھی لگ گئے، غرض سب کچھ ہو گیا اور ہر چیز سے پورا انسداد ہو گیا، جن لوگوں کے دروازے مسجد کی جانب تھے، وہ بھی مسدود ہو گئے، غرض بہر صورت کامل انتظام ہو گیا۔ «فالحمدلله»
------------------
۱؎ [سنن ابي داود:382،قال الشيخ الألباني: صحيح]
۲؎ [فتح الباري:279/1]
۳؎ [فتح الباري:278/1]
۴؎ صحیح بخاری کی منقولہ بالا حدیث یہیں سے شروع ہوتی ہے: «كانت الكلاب تبول و تقبل .....الخ»
   دفاع صحیح بخاری، حدیث/صفحہ نمبر: 104   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 174  
´جب کتا برتن میں پی لے (تو کیا کرنا چاہیے)`
«. . . حَدَّثَنِي حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَتِ الْكِلَابُ تَبُولُ وَتُقْبِلُ وَتُدْبِرُ فِي الْمَسْجِدِ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَكُونُوا يَرُشُّونَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ . . . .»
. . . حمزہ بن عبداللہ نے اپنے باپ (یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) کے واسطے سے بیان کیا۔ وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کتے مسجد میں آتے جاتے تھے لیکن لوگ ان جگہوں پر پانی نہیں چھڑکتے تھے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ إِذَا شَرِبَ الْكَلْبُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْسِلْهُ سَبْعًا:: 174]
تشریح:
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ یہ معاملہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا جب کہ مسجد کے کواڑ وغیرہ بھی نہ تھے، اس کے بعد جب مساجد کے بارے میں احترام و اہتمام کا حکم نازل ہوا تو اس طرح کی سب باتوں سے منع کر دیا گیا، جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے فرمایا کہ لوگو! مسجد میں بےہودہ بات کرنے سے پرہیز کیا کرو، سو جب لغو باتوں سے روک دیا گیا، تو دوسرے امور کا حال بھی بدرجہ اولیٰ معلوم ہو گیا۔ اسی لیے اس سے پہلے حدیث میں کتے کے جھوٹے برتن کو سات مرتبہ دھونے کا حکم آیا۔ اب وہی حکم باقی ہے۔ جس کی تائید اور بہت سی احادیث سے ہوتی ہے۔ بلکہ بعض روایات میں کتے کے جھوٹے برتن کے بارے میں اتنی تاکید آئی ہے کہ اسے پانی کے علاوہ آٹھویں بار مٹی سے صاف کرنے کا بھی حکم ہے۔ مٹی سے اول مرتبہ دھونا چاہئیے پھر سات دفعہ پانی سے دھونا چاہئیے۔

اس مسئلہ میں احناف اور اہل حدیث کا اختلاف:
کتے کے جھوٹے برتن کو سات بار پانی سے دھونا اور ایک بار صرف مٹی سے مانجھنا واجب ہے۔ یہ اہل حدیث کا مذہب ہے اور صرف تین بار پانی سے دھونا یہ حنفیہ کا مذہب ہے۔
سرتاج علمائے اہل حدیث حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں:
«قال الشوكاني فى النيل يدل على وجوب الغسلات السبع فى ولوغ الكلب واليه ذهب ابن عباس و عروة بن الزبير و محمد بن سيرين و طاووس و عمروبن دينار والاوزاعي ومالك و الشافعي واحمد بن حنبل واسحاق و ابوثور و ابوعبيدة و داود انتهي . وقال النووي وجوب غسل نجاسة ولوغ الكلب سبع مرات وهذا مذهبنا و مذهب مالك و الجماهير . وقال ابوحنيفة يكفي غسله ثلاث مرات انتهي . وقال الحافظ فى الفتح واما الحنفية فلم يقولوا بوجوب السبع ولا التترتيب .» [تحفة الاحوذي، ج1، ص: 93]
خلاصہ اس عبارت کا یہی ہے کہ ان احادیث کی بنا پر جمہور علمائے اسلام، صحابہ کرام و تابعین وائمہ ثلاثہ و دیگر محدثین کا مذہب یہی ہے کہ سات مرتبہ دھویا جائے۔ برخلاف اس کے حنفیہ صرف تین ہی دفعہ دھونے کے قائل ہیں۔
اور ان کی دلیل وہ حدیث ہے جسے طبرانی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تمہارے کسی برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے تین بار یا پانچ بار یا سات بار دھو ڈالو۔
جواب اس کا یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس لیے کہ شیخ ابن ہمام حنفی نے فتح القدیر میں لکھا ہے کہ حسب وضاحت امام دارقطنی اس کی سند میں ایک راوی عبدالوہاب نامی متروک ہے، جس نے اسماعیل نامی اپنے استاد سے اس حدیث کو اس طرح بیان کیا۔ حالانکہ ان ہی اسماعیل سے دوسرے راوی اسی حدیث کو روایت کرتے ہیں۔ جنہوں نے سات بار دھونا نقل کیا ہے۔ دوسرا جواب یہ کہ یہ حدیث دارقطنی میں ہے جو طبقہ ثالثہ کی کتاب ہے اور سنن ابن ماجہ میں یہ روایت ہے۔ «اخرج ابن ماجة عن ابي رزين قال رايت اباهريرة يضرب جبهته بيده ويقول يا اهل العراق انتم تزعمون اني اكذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم ليكون لكم الهنا وعلي الاثم اشهد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم يقول اذا ولغ الكلب فى اناءاحدكم فليغسله سبع مرات .» [تحفة الاحوذي، ج1، ص: 94]
یعنی ابورزین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا آپ اظہار افسوس کرتے ہوئے اپنی پیشانی پر ہاتھ مار رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ اے عراقیو! تم ایسا خیال رکھتے ہو کہ میں تمہاری آسانی کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھوں اور گنہگار بنوں۔ یاد رکھو میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کتا تمہارے برتن میں منہ ڈالے تو اسے سات مرتبہ دھو ڈالو۔ معلوم ہوا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے تین بار دھونے کی روایت ناقابل اعتبار ہے۔ علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے دلائل خلافیہ پر منصفانہ روشنی ڈالی ہے۔ [ديكهو سعايه، ص: 451]
بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک کتا اور کتے کا جھوٹا پاک ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ بعض علماء مالکیہ وغیرہ کہتے ہیں کہ ان حادیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض کتے کی اور اس کے جھوٹے کی پاکی ثابت کرنا ہے اور بعض علماء کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ غرض نہیں ہے۔ بلکہ آپ نے صرف لوگوں کے مذہب بیان کئے ہیں۔ وہ خود اس کے قائل نہیں ہیں، اس لیے کہ ترجمہ میں آپ نے صرف کتے کے جھوٹے کا نام لیا۔ یوں نہیں کہا کہ کتے کا جھوٹا پاک ہے۔

حدیث بخاری کے ذیل میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں:
«وفي الحديث دليل على نجاسة فم الكلب من حيث الامر بالغسل لما ولغ فيه والا راقة للماء .» [مرعاة، ج 1، ص: 324]
یعنی اس حدیث مذکورہ سے بخاری میں دلیل ہے کہ کتے کا منہ ناپاک ہے اسی لیے جس برتن میں وہ منہ ڈال دے اسے دھونے اور اس پانی کے بہا دینے کا حکم ہوا۔ اگر اس کا منہ پاک ہوتا تو پانی کو اس طور پر ضائع کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔ منہ کے ناپاک ہونے کا مطلب اس کے تمام جسم کا ناپاک ہونا ہے۔

عبداللہ بن معقل کی حدیث جسے مسلم و دیگر محدثین نے نقل کیا ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ سات بار پانی سے دھونا چاہئیے اور آٹھویں بار مٹی سے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت شیخ الحدیث مبارک پوری مدظلہ العالی فرماتے ہیں:
«وظاهره يدل على ايجاب ثمان غسلات وان غسله التتريب غيرالغسلات السبع وان التتريب خارج عنها والحديث قداجمعوا على صحة اسناده وهى زيادة ثقة فتعين المصير اليها .» [مرعاة، ج1، ص: 324]
یعنی اس سے آٹھ دفعہ دھونے کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور یہ کہ مٹی سے دھونے کا معاملہ سات دفعہ پانی سے دھونے کے علاوہ ہے۔ یہ حدیث بالاتفاق صحیح ہے اور پہلی مرتبہ مٹی سے دھونا بھی صحیح ہے۔ جو پہلے ہی ہونا چاہئیے بعد میں سات دفعہ پانی سے دھویا جائے۔

باقی احناف کے دیگر دلائل کے مفصل جوابات شیخ العلام حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایہ ناز کتاب ابکار المنن، [ص: 29-32] میں مفصل ذکر فرمائے ہیں، ان کا بیان یہاں کرنا طوالت کا باعث ہو گا۔

مناسب ہو گا کہ کتے کے لعاب کے بارے میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک سے متعلق حضرت العلام مولانا انور شاہ صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کا قول بھی نقل کر دیا جائے جو صاحب انوار الباری کی روایت سے یہ ہے۔

امام بخاری سے یہ بات مستبعد ہے کہ وہ لعاب کلب کی طہارت کے قائل ہوں۔ جب کہ اس باب میں قطعیات سے نجاست کا ثبوت ہو چکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ امام بخاری نے دونوں طرف کی احادیث ذکر کر دی ہیں۔ ناظرین خود یہ فیصلہ کر لیں۔ کیونکہ یہ بھی ان کی ایک عادت ہے۔ جب وہ کسی باب میں دونوں جانب قوت دیکھتے ہیں تو دونوں طرف کی احادیث ذکر کر دیا کرتے ہیں۔ جس سے یہ اشارہ ہوتا ہے کہ وہ خود بھی کسی ایک جانب کا یقین نہیں فرماتے واللہ اعلم۔ [انوارالباري، ج5، ص: 107]
کلب معلم کی حدیث ذیل لانے سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت امام عمومی طور پر لعاب کلب کی طہارت کے قائل نہیں ہیں۔

کلب معلم وہ کتا جس میں اطاعت شعاری کا مادہ بدرجہ اتم ہو اور جب بھی وہ شکار کرے کبھی اس میں سے خود کچھ نہ کھائے۔ [كرماني]
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 174   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 174  
´جب کتا برتن میں پی لے (تو کیا کرنا چاہیے)`
«. . . قَالَ: كَانَتِ الْكِلَابُ تَبُولُ وَتُقْبِلُ وَتُدْبِرُ فِي الْمَسْجِدِ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَكُونُوا يَرُشُّونَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کتے مسجد میں آتے جاتے تھے لیکن لوگ ان جگہوں پر پانی نہیں چھڑکتے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 174]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
پہلی حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں واضح طور پر اس کا حل ہے کہ جس برتن میں کتا منہ ڈال دے اسے سات مرتبہ پانی سے دھوئیں. [صحيح بخاري 172]
مگر دوسری حدیث میں صاف طور پر اس کا انکار ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس جگہ کو نہیں دھوتے تھے جہاں کتا بیٹھتا تھا۔ [صحيح بخاري 174]
اس میں تطبیق یہ ہو گی کہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں:
یہ معاملہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا جب کہ مسجد کے کواڑ وغیرہ بھی نہ تھے۔ اس کے بعد جب مساجد کے بارے میں احترام و اہتمام کا حکم نازل ہوا تو اس طرح کی باتوں سے منع کر دیا گیا کہ جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے فرمایا: لوگو! مسجد میں بیہودہ بات کرنے سے پرہیز کرو۔ تو جب لغو بات سے روکا گیا تو دوسرے امور کا بھی یہی حال ہو گا۔ اس لئے اس سے پہلے حدیث میں کتے کے جھوٹھے برتن کے بارے میں سات مرتبہ دھونے کا حکم آیا تھا اب وہی حکم باقی ہے جس کی تائید کئی احادیث سے ہوتی ہے۔ بلکہ بعض احادیث میں کتے کے جھوٹھے برتن کو سات مرتبہ دھونے کے بعد آٹھویں مرتبہ مٹی سے دھونے کا بھی حکم آیا ہے۔ مٹی سے اول مرتبہ پھر سات مرتبہ پانی سے۔ [فتح الباري ج1 ص219۔ 220]

لہٰذا باب اور حدیث میں مناسبت یوں ہے کہ باب میں دھونے کے بارے میں یا کتنی مرتبہ کتے کے جھوٹھے کو دھویا جائے۔ متعین نہیں مگر حدیث میں سات مرتبہ کا ذکر ہے اور دوسری حدیث جس میں مطلق نہ دھونے کا ذکر ہے وہ منسوخ ہے لہٰذا نہ دھونا منسوخ ہوا تو دھونا بالاولیٰ درست ٹھہرا، یہیں سے ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔

فائدہ:
مذکورہ حدیث کا تعلق حیوانات کے ساتھ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال قبل ایک ایسی تحقیق کی وضاحت کی جسے آج سائنسدان مانتے ہوئے نظر آتے ہیں جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی روشن دلیل ہے۔ دو میڈیکل ڈاکٹر باپ اور بیٹی مصر میں مقیم تھے اور یہ دونوں فرانسیسی تھے۔ جب باپ نے یہ حدیث پڑھی تو فوری طور پر کتے کے سامنے ایک برتن میں پانی رکھ دیا جب وہ اس کو پی چکا تو انہوں نے خردبین سے دیکھا کہ اس میں جراثیم موجود تھے۔ پانی گرا کر کئی بار دھویا گیا. ہر بار جراثیم برتن میں تھے حتیٰ کہ جب مٹی سے مانجھا گیا اور اس کے بعد چیک کیا گیا تو جراثیم نہ صرف مر چکے تھے بلکہ برتن پاک ہو گیا تھا. اس پر دونوں ڈاکٹر باپ اور بیٹی مسلمان ہو گئے۔

سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور جدید سائنسی تحقیقات کے مصنف رقمطراز ہیں:
موجودہ دور کی تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ کتے کے تھوک میں وہ جراثیم پاتے جاتے ہیں جو کتے کو پاگل بناتے ہیں۔ جنہیں انگریزی میں ریبیز وائرس کہتے ہیں۔ کتا جب کسی برتن کو چاٹے گا تو اگر وہ جراثیم اس برتن کے ساتھ لگ گئے تو وہ جراثیم بغیر مٹی سے مانجھے برتن سے علیحدہ نہیں ہو سکتے ہیں نہ ہی فنا ہو سکتے ہیں۔ خاک میں یہ خاصیت ہے کہ ان جراثیم کو فنا کر دیتی ہے۔ اسی بناء پر اسلام نے مٹی سے مانجھنے کا حکم دیا ہے۔۔۔

طویل تجربات و مشاہدات اور طبی تحقیقات نے دونوں حقیقتوں کا واشگاف کر دیا ہے۔ طبی تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کتے کے لعاب دہن میں ایک مخصوص قسم کے جراثیم ہوتے ہیں جنہیں ریبی وائرس کہتے ہیں، ان سے ایک انتہائی مہلک اور موذی مرض پیدا ہوتا ہے۔ جس کے اثرات ظاہر ہونے کے بعد کوئی مریض بچ نہیں سکتا۔ اسی طرح تحقیقات نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ مٹی میں دیگر اجزاء کے علاوہ کثیر مقدار میں نوشادر، شورہ، امونیم اور کیلشیم آکسائیڈ ہوتے ہیں، جن سے اس قسم کے وائرس کی تطہیر ہو جاتی ہے۔ [سنت نبوي صلى الله عليه وسلم اور جديد سائنسي تحقيقات، ج2، ص291]

فائدہ نمبر 2:
کتےکے جھوٹھے برتن کو پاک کرنے کے لیے احادیث میں مختلف الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ کسی حدیث میں تین مرتبہ دھونے کا ذکر ہے تو کسی میں پانچ مرتبہ تو کسی میں سات مرتبہ۔

ابن الملقن رحمہ اللہ ان مختلف روایات پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«انه روي من طريق ابي هريرة رضى الله عنه مرفوعاً التخيير بين الثلاث الخمس والسبع، فل كان السبع واجباً لم يخير بينه و بين الباقي لكنه ضعيف كمانبه الدار قطني فى سننه والبهقي فى خلافيات» [التوضيح الشرح الجامع الصحيح، ج4 ص2455]
یعنی وہ روایت بطریق سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہیں۔ تین، پانچ اور سات مرتبہ دھونے میں اختیار ہے۔ پس اگر سات مرتبہ واجب ہوتا تو ان میں اختیار نہ ہوتا۔ لیکن (تین اور پانچ کی روایات) وہ ضعیف ہیں جس کا ذکر امام دارقطنی نے سنن میں اور امام بیہقی نے خلافیات میں فرمایا ہے۔
سنن دارقطنی میں تین مرتبہ دھونے کا ذکر ہے مگر امام دارقطنی فرماتے ہیں اس کی سند موقوف ہے۔
دوسری روایت میں تین پانچ اور سات مرتبہ کا ذکر ہے اس روایت کے بعد امام دارقطنی فرماتے ہیں عبدالوہاب نے تفرد کیا ہے اسماعیل سے اور وہ متروک الحدیث ہے۔
تیسری روایات بھی اسی سے ملتی جلتی ہے اس کی سند میں عبدالوہاب بن الضحاک ہے۔ امام نسائی وغیرہ نے فرمایا متروک۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:
① التعلیق المغنی على سنن الدارقطنی، ج92 تا 96
② التحقیق لابن الجوزی، ج1، ص74
③ مشکل الآثار للطحاوی، ج1، ص 23
④ الخلاقیات للبیھقی، ج1 صح379 تا 382

بعض اہل علم نے تین مرتبہ اور پانچ مرتبہ دھونے کے حکم کو منسوخ خیال کیا ہے۔ مگر منسوخ بغیر دلیل کے ثابت نہیں ہوتا جب روایات ضعیف ہیں تو پھر منسوخ کے تکلف میں پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
[التحرير للكمال بن الهمام ص 229]
[امير بادشاه فى تيسيرالتحرير ج3، ص72]
[التقرير والتحبير لابن امير الحاج، ج2، ص266]
مگر احتمال سے نسخ ثابت نہیں ہوا کرتا بلکہ منسوخیت کے کئی ایک دلائل علماء نے ذکر فرمائے ہیں۔ مزید تحقیق کے لیے ان کتب کی طرف مراجعت مفید رہے گی۔
① نیل الاوطار 42/1
② الام6/1
③ نصب الرایۃ ج1، ص131
④ مغنی المحتاج 83/1
⑤ المھذب، ج1، ص 55
⑥ شرح النوی علی مسلم185/3
④ التنبیہ ص17
⑦ الشرح الصغیر 85/1
⑧ المجموع، ج2، ص585
⑨ حاشیۃ الدسوقی 84/1
⑩ المغنی73/1
⑪ مقدمات ابن ارشد 21/1
⑫ شرح منتھی الارادات97/1
⑬ قوانین احکام الشریعۃ، ص35
⑭ المحرر4/1
⑮ فتح باب العنایۃ 149/1
⑯ الشرح الکبیر128/1
⑰ کشاف القناع 208/1
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 135   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:174  
174. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کتے مسجد میں (پیشاب کرتے اور) آتے جاتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم وہاں کسی جگہ پر پانی نہیں چھڑکتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:174]
حدیث حاشیہ:

یہ اسلام کی ابتدائی دور کی بات ہے جب مساجد کی حرمت وتکریم کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔
اس وقت مسجد کے دروازے بھی نہیں تھے۔
بعد میں مساجد کی حرمت وتکریم کا حکم بھی دیاگیا اور مسجد کے دروازے بھی لگادئیے گئے اوریوں مسجد میں کتوں کی آمدورفت بند ہوگئی۔
(فتح الباری 364/1۔
)


اس حدیث کو بھی سورکلب کی طہارت کے لیے بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے کیونکہ عہد نبوی میں کتے بلاتکلف مسجد میں آتے جاتےتھے پھر کتے کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ کھلے منہ چلتا ہے اور اس کےمنہ سے رال ٹپکتی رہتی ہے،پھر مسجد میں آمدورفت سے اس کے لعاب دہن کا گرنا عین ممکن ہے،ان سب چیزو ں کے باوجود پانی وغیرہ چھڑکنے کا انتظام نہ تھا،لیکن احکام شریعت میں اس قسم کے توہمات وخیالات کا اعتبار نہیں ہوتا،ہاں اگر کسی نے اس لعاب کا گرنا دیکھا ہو اور اس کے بعد مسجد کو نہ دھویا گیا ہوتو بات بن سکتی ہے۔
علمی طور پر (تَوَهُّمِ)
نجاست پرنجاست کا حکم لگانا صحیح نہیں،لہذا یہ روایت سورکلب کے پاک ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی۔
ہاں اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے تیسرے حصے کا ثبوت ملتا ہے کہ مسجد میں کتوں کے آنے جانے سے مسجد پلید نہیں ہوتی۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس سے بعض لوگوں نے کتے کے پاک ہونے پر استدلال کیا ہے کہ زمانہ رسالت میں کتے مسجد میں آتے جاتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس وجہ سے مسجد کے فرش کو نہیں دھوتے تھے۔
کتوں کی طہارت پر یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ کتے مسجد میں پیشاب بھی کرتے تھے۔
(سنن ابی داؤد الطھارۃ حدیث 382۔
)

کتے کے پیشاب کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں کہ وہ نجس ہے۔
امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اس امر پر استدلال کیا ہے کہ نجس زمین خشک ہوکرپاک ہوجاتی ہے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مسجد کو پاک کرنے کے لیے معمولی پانی بھی نہیں چھڑکتے تھے چہ جائے کہ اسے اچھی طرح دھویاجائے۔
اگر مسجد خشک ہوکر پاک نہ ہوتی تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اسے یونہی نہ چھوڑتے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ بآواز بلند فرمایا کرتے تھے مسجد میں لغو باتیں کرنے سے اجتناب کرو۔
جب بے فائدہ باتوں سے روک دیا گیا تو دوسرے معاملات کے متعلق بھی انھوں نے انتظام کیاہوگا۔
(فتح الباری 365/1۔
)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 174